بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل حدیث کےمسلک کی حیثیت


سوال

میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ1- اہلحدیث مسلک جن کو غیر مقلد بھی کہتے ہیں ، کے تمام لوگ علماء اور عوام بھی کیا اہل سنت والجماعۃ میں شامل ہیں جیسا کہ امت کے چاروں معتبر و مستند مذاہب اربعہ مل کر ایک ہی اہل سنت والجماعت بناتے ہیں۔2- کیا مسلک اہلحدیث بھی دوسرے مذاہب اربعہ کی طرح ایک معتبر اور امت کا ایک مشہور فروعی مسلک رہا ہے یا یا یہ کوئی موجودہ زمانہ کا نیا فرقہ ہے اور مذاہب اربعہ سے ان کا اختلاف اصول و عقیدہ کا اختلاف ہے یا صرف فروعی اختلاف ہے۔3- امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ اندلسی کے مسلک کو اپنانے والے یعنی ظاہری مسلک کیا اہل سنت والجماعت میں شامل ہیں ۔اور کیا ظاہری مسلک بھی جو قیاس کے ماخذ شریعت ہونے کا بالکلیہ انکار کرتے ہیں اور ادلہ شرعیہ میں سے تین کے قائل ہیں قرآن، حدیث، اور اجماع امت امت کا مشہور اور معتبر مسلک حق رہا ہے جیسا کہ چار مشہور مذاہب اربعہ ہیں یا یہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں۔4- میرا خیال ہے کہ برصغیر کے اہلحدیث بھی عملا اہل الظاہر کے مسلک پر ہیں کیوں کہ یہ بھی دین کے ماخذ صرف تین چیزوں قرآن ، حدیث اور اجماع امت کو ہی حجت شرعیہ مانتے ہیں اور قیاس کا مطلقا انکار کرتے ہیں۔ مجھے بتلائیے کہ میرا خیال کہاں تک درست ہے۔ ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ مسلک اہلحدیث کا علمائے خواص و عام تمام کہ تمام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ،امام ابن قیم رحمہ اللہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ یا ماضی قریب میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ وغیرہ کو اپنے مسلک اہلحدیث کے اکابر اور مستند و معتبر ائمہ اہلسنت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔جبکہ ان مذکورہ ائمہ کرام کا اہل سنت میں شامل ہونا اور بعض کا متفقہ امام اہل سنت ہونا مشہور ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ مجھے جامع و مفصل جواب عنایت فرمائیں گے یا کم از کم بھی مجھے آپ سے تشفی آمیز اور مسکت جواب کی توقع ہے۔اللہ تعالی میرے اور آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔آمین

جواب

ج:۔ سوالوں کے نمبروار مختصر جوابات سے قبل دو بنیادی باتیں ملحوظ خاطر ہونا از حد ضروری ہیں ۔ ۱۔پہلی بات تویہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ اپنے نظریاتی اور جسمانی وجود کی بقا کے لیے بڑے بڑے مسائل سے دوچارہے ان ضمنی مسائل کو چھوڑ کر ان مسائل پر توجہ مرکوزکرنی چاہئے جو امت مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں ۔ ۲۔دوسری بات یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا لغوی معنیٰ ہے سنت اور جماعت والے یعنی جو لوگ قرآن وسنت اور اجماع امت کوحجت ودلیل مانتے ہوں وہ اہل سنت والجماعت ہیں اور ان کے مقابل کو اہل بدعت کہا جاتاہے ، اہل بدعت کا لقب سب سے پہلے معتزلہ کے بارے میں مشہور ہوا،جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اجماع کو حجت نہیں مانتے تھے ۔شرح عقائد نسفی ،ص:۶ اب سوالوں کے جواب ملاحظہ ہوں : ۱۔اہل حدیث اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اجماع کو حجت شرعی مانتے ہیں تووہ اہل سنت والجماعت کے اصطلاحی مفہوم کے مصداق بن سکتے ہیں ورنہ نہیں ،یہ سوال ان سے پوچھا جائے یا ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے کہ وہ اس سلسلے میں کیا موقف رکھتے ہیں ۔ ۲۔برصغیر کے جن غیر مقلد حضرات کا مسلکی لیٹریچر عام ہے اس کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنا ایسا انفرادی تشخص رکھتے ہیں جس کی مثال سا بقہ ادوار میں نہیں ملتی ،سابقہ ادوار میں اہل حدیث کا لقب کسی فروعی مسلک کے لیے نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ حدیث پڑھنے ،پڑھانے والے لوگوں کے لیے استعمال ہو تا تھا ، موجودہ اہل حدیث کے نام سے مسلکی شناخت کے طور پر متعارف ہونے والے حضرات کا وجود ۱۸۵۷ءء کے بعد ہندوستان میں نمودار ہوا ہے ۔ اس بات کی تصریح خود ان حضرات کی تحریروں میں پائی جاتی ہے ، بایں معنیٰ موجود ہ وقت کے اہل حدیث غیر مقلد حضرات کا اس شناخت کے ساتھ سابقہ ادوار میں کوئی وجود نہیں تھا ،گو کہ ان کے بعض افکار گذشتہ ادوار کے بعض اہل علم کے افکار کے مشابہ ضرور ہو سکتے ہیں ان حضرات کا مذاہبِ اربعہ سے اختلاف بعض مسائل میں توفروعی ہے مگر تقلید اور اجماع امت کے بارے میں اختلاف نظریاتی اور اصولی ہے فروعی نہیں ہے ۔ ۳۔جن أئمہ دین کو مذاہب اربعہ متبوعہ سے الگ رائے قائم کرنے کے باوجو داہل سنت والجماعت میں شمار کیا گیا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ نظریا تی اوراصولی طور پر اجماع کے حجت ہونے کے قائل تھے ۔اس لیے نہ تو انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج کیا گیا اور نہ ہی ان کے متعلق اس قسم کے سوال کی نوبت آئی ۔ ۴۔آپ مو جود ہ اہل حدیث کے بارے میں اپنا بیان کر دہ خیال قائم فرمانے سے قبل ان کے علماء سے استفسار کریں کہ کیا وہ حضرات واقعتا اجماع امت کو حجت سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ سمجھتے ہیں تو آپ کا یہ خیال کسی حد تک درست ہو گا،اگر نہیں سمجھتے جیسا کہ ان کی بعض تحریروں میں موجود ہے پھر آپ کا یہ خیال درست نہیں ہو گا،جہاں تک ذکر کردہ أئمہ و مشائخ کے ماننے کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی استفسار کی ضرورت ہے کیونکہ اگر وہ ان أئمہ کرام کو اپنا امام اور مقتدا سمجھتے ہیں جیسا کہ مقلدین حضرات اپنے أئمہ امام اعظم ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کوامام مانتے ہیں تو پھر آپ کا خیال درست ہو گا بلکہ پھر تو مقلدین اور غیر مقلد ین کے درمیان تقلید کی بنیاد پر کوئی اصولی اختلاف رہے گا ہی نہیں ،کیونکہ یہ بھی مقلد اور وہ بھی مقلد ہیں ،صرف چند مسائل میں فروعی اختلاف رہے گا اور وہ اختلاف ایسا ہی ہو گا جیسا کہ حنفی شافعی اختلا ف ہے ۔ اہلحدیث حضرات آپ کے زعم کے برعکس اگر ان أئمہ مذکورین کو اپنا امام نہ مانتے ہوں جیسا کہ ان کا معروف نظریہ ہے تو پھر آپ کا خیال درست نہیں ہو گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں