بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی تجہیز و تکفین


سوال

میت کی تجہیز و تکفین میں کیا داخل ہے؟

جواب

میت کی تجہیز و تکفین سے کیا مراد ہے؟ سوال میں اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں، دونوں اعتبار سے جواب درج کیا جاتاہے:

(1) اگر آپ کی مراد  تجہیز اور تکفین کے عمل  کے اجزاء ہیں تو  اس میں تفصیل یہ ہے:

تجہیز  میں میت کے انتقال کے وقت اس کو کلمہ کی تلقین کرنا، پھر موت  کے بعد میت کو غسل دینے کی لیے ضروری اشیاء کا انتظام کرنا اور اسے غسل دینا اور پھر کفن دینا  شامل ہے۔

غسل کی تیاری میں مندرجہ ذیل چیزوں کا اہتمام کر لیں: 
 بیری کے پتے ڈال کرپانی نیم گرم کرلیں،  ورنہ سادہ پانی ہی کافی ہے۔ 

غسل کے تختہ کو طاق عدد میں لوبان، اگر بتی یا کسی خوش بو دار چیز کی دھونی دے دیں۔
میت کے ستر پر (ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت) موٹا کپڑا ڈال کر بدن کے کپڑے اتار لیں، وہ کپڑا اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ بھیگنے کے بعد بدن نظر نہ آئے۔

جس جگہ غسل دیا جائے وہاں پردہ ہونا چاہیے۔  (ہندیہ : 1/158)
سب سے پہلے میت کو استنجا کرایا جائے گا، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں میں دستانے پہن کریا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ کر میت کے ستر پر موجود کپڑے کے اندر اندر ہی سے دھویا جائے گا۔  شرم گاہ یا رانوں کے حصے کو بلا حائل چھونا، یا دیکھنا درست نہیں۔
پھر میت کو وضو کرائیں، میت کو وضو کرانے میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا عمل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح گٹوں تک ہاتھ بھی نہیں دھلائے جائیں گے،  بلکہ روئی کو تر کر کے دانتوں، مسوڑھوں اور ناک کے دونوں سوراخوں میں تین تین مرتبہ پھیر دی جائےگی، یہ کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر میت کا حیض و نفاس یا جنابت کی حالت میں انتقال ہوا ہو تو یہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔اُس کے بعد ناک ، منہ اور کانوں میں روئی رکھ دیں، تاکہ وضو اور غسل میں پانی اندر نہ جائے۔ پھر پہلے چہرہ پر پانی ڈالیں گے، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئیں گے، پھر سر کا مسح کرایا جائے گا، پھر دونوں پاؤں کو دھوئیں گے۔
میت کے جسم پر تین مرتبہ پانی بہایاجائے گا: پہلی اور دوسری مرتبہ بیری کے پتوں میں پکا ہوا پانی اور تیسری مرتبہ کافور ملا ہوا پانی بہائیں گے۔ 
پانی بہانے کی تفصیل یہ ہے: وضو کے بعد پانی بہانے سے قبل میت کے سر کو صابن وغیرہ سے خوب مَل کر دھویا جائے گا۔پھر مُردے کو بائیں کروٹ پر لٹا کر بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین دفعہ سر سے پیر تک اتنا ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی بائیں کروٹ پر پہنچ جائے ۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین دفعہ اتنا پانی ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی دائیں کروٹ تک پانی پہنچ جائے ۔ 
اُس کے بعد میت کو اپنے بدن سے ٹیک لگاکر ذرا سا بٹھانے کے قریب کرکے اُس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ نرمی سے ملیں (دبائیں) گے، اگر کچھ فضلہ خارج ہو تو صرف اُس کو صاف کردیا جائے گا، وضو اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ اس سے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ یہاں تک غسل مکمل ہوگیا۔

اُس کے بعد کسی کپڑے سے میت کے بدن کو خشک کرکے اوپر کا گیلا کپڑا بدل دیں گے، اور جسم پر کافور مل دیں گے۔ پھر اسے کفنایاجائے گا۔
فائدہ: میت کو غسل دینے کے بعد غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں ہوتا،  تاہم اس کے لیے بھی غسل کرلینا مستحب ہے ۔

مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ (بڑی چادر جو میت کے سر سے لے کر پاؤں سے کچھ بڑی ہو) بچھا کر اس پر ازار (میت کے سر سے پاؤن تک چادر)بچھا دیں، پھر کرتہ (قمیص) کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو ستر کا خیال رکھتے ہوئے غسل کے تختے سے آہستہ سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹا دیں اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اُس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آ جائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص(کرتہ) پہنا چکیں تو غسل کے بعد جو تہہ بند میت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں، اور میت کے سَر اور داڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوش بو لگا دیں۔  پھر پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر (یعنی جن اعضاء پر آدمی سجدہ کرتا ہے) کافور مل دیں۔

اس کے بعد ازار کا بایاں پلّہ (کنارہ) میّت کے اوپر لپیٹ دیں، پھر دایاں لپیٹیں، یعنی بایاں پلّہ نیچے رہے اور دایاں اوپر، پھر لفافہ اسی طرح لپیٹیں کہ بایاں پلّہ نیچے اور دایاں اوپر رہے، پھر کپڑے کی دھجی (کتر) لے کر کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں، اور بیچ میں سے کمر کے نیچے کو بھی ایک دھجی (کتر) نکال کر باندھ دیں، تاکہ ہوا یا ہلنے جلنے سے کھل نہ جائے۔ (احکام میت ص:83-84ط:ادارۃ الفاروق)

اس مکمل طریقہ کار کو سیکھنے  کے لیے  ’’احکامِ میت‘‘  (از ڈاکٹر عند الحی رحمہ اللہ) سے استفادہ کرلیجیے۔ میت کی تجہیز اور تکفین کے بعد اس کی نمازِ جنازہ اور تدفین کے اَحکام ہیں۔

(2) اور اگر آپ کی مراد میراث کے مسائل کے جواب میں لکھی جانے والی اصلاح ہے،  تو وہاں تجہیز اور تکفین سے مراد میت کی موت سے لے کر اس کی تدفین تک کے انتظامات اور ان کے اخراجات اعتدال کے ساتھ ادا کرنا ہے، مثلاً: کفن کی قیمت، قبر  تیار کرنے کا خرچہ وغیرہ۔

(والصلاة علیه فرض کفایة کدفنه) وغسله وتجهیزه و تکفینه فإنها فرض کفایة". (الدرالمختار ۲:۲۰۷) وکذا في العالمگیریة ۱:۱۶۵)
"وفي النوازل: سئل عن أجر القبر یکون من جمیع المال؟ قال: هو بمنزلة الکفن من جمیع المال، کذا في التتارخانیة". (عالمگیریة ص ۴۵۲، ج ۴)
"وفي التجرید: رجل استأجر قوماً یحملون جنازةً أو یغسلون میتًا إن کان في موضع لایجد من یغسله غیر هؤلاء ومن یحمله غیر هؤلاء فلا أجرلهم، وإن کان ثمة أناس فلهم الأجر، وحفر الحفار علی هذا، وفي موضوع لا أجر لهم لو أخذوا الأجر لایطیب لهم، کذا في الخلاصة".  (عالمگیریة ص ۴۵۲، ج ۴) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144107200184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں