بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف بال کہاں سے کہاں تک صاف کرنے چاہییں؟ اور دبر کے بالوں کا کیا حکم ہے؟


سوال

زیرِ ناف بال کہاں سے کہاں  تک صاف کرنےچاہییں؟  اگر کسی کے دبر پر بال ہوں تو کیا وہ دبر کے بال صاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیجیے۔ 

جواب

زیرِناف بالوں کی حد ناف کے  نیچے  پیڑو کی ہڈی (اگر آدمی اکڑو ں بیٹھے  تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں) سے لے کر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کے آس پاس کاحصہ اور رانوں کا صرف وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو، یہ زیر ناف بالوں کی حد ہے؛   لہذا ان سب بالوں کا کاٹنا ضروری ہے،  یہ بال صاف کرنا سنت اور امورِ فطرت میں  سے ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ صفائی کرنا مستحب اور خاص جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرنا باعثِ فضیلت ہے، پندرہ دن کی تاخیر سے کرنا بھی جائز ہے، لیکن  چالیس دن سے زائد چھوڑے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، جو شخص اِن بالوں کو چالیس دن کے اندر  صاف نہیں کرے گا  وہ گناہ گار ہوگا۔ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دبر (پاخانے کے مقام) کے بال تو کاٹنے کے زیادہ لائق ہیں، کیوں کہ وہاں بال رہنے کی صورت میں نجاست کا باقی رہنا زیاہ محتمل ہے۔

"عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خمس من الفطرة : الختان ، والاستحداد ، وتقليم الأظفار ، ونتف الإبط ، وقص الشارب".

(أخرجه ابن أبي شيبة في باب «في الفطرة، ما يعد فيها» 2/ 292 برقم : 2059، ط : شركة دار القبلة الطبعة الأولى 1427ه)

"أراد بالفطرة السنة القديمة التي اختارها الأنبياء عليهم السلام واتفقت عليها الشرائع فكأنها أمر جلى فطروا عليه".

(عمدة القاري: كتاب اللباس، باب قص الشارب (22/ 45)،ط. دار إحياء التراث العربي – بيروت)

بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے:

"(والاستحداد) وهو حلق العانة، وهو متفق على أنه سنَّة".

(باب في أخذالشارب، 12/ 223 ، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

وأخرج ابن ماجه في «باب الفطرة» (1/ 197 برقم : 295 ، ط : دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م) :

"عن أنس بن مالك، قال: وقّت لنا في قص الشارب وحلق العانة ونتف الإبط، وتقليم الأظفار: أن لا تترك أكثر من أربعين ليلةً."

فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر." 

( کتاب الحج، فصل في الإحرام وصفة المفرد، 2 /481 ط: سعید) 

وفیه أيضًا:

"قال في القنية: الأفضل أن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع وإلا ففي كل خمسة عشر يومًا ولا عذر في تركه وراء الأربعين ويستحق الوعيد فالأول أفضل والثاني الأوسط والأربعون الأبعد آهـ ."

(كتاب الصلاة، باب العيدين، مطلب في إزالة الشعر والظفر في عشر ذي الحجة 2/ 181، ط : سعيد)

بعض فقہاءِ کرام فتاویٰ ہندیہ کی درج ذیل عبارت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ ناف کے متصل نیچے سے کاٹنا شروع کرے۔

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب."

(کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها 5 /358، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں