زکوٰۃ کے مال سے مساجد کی تعمیر کرنا کیسا ہے؟
از روئے شرع زکوۃ کی رقم کا مصرف مستحق آدمی ( یعنی ایسا شخص جو مسلمان اور غیرسید ہو، لیکن صاحبِ نصاب نہ ہو) کو مذکورہ رقم کا بلاعوض مالک بناکر دینا ضروری ہے،لہذا زکوۃ کی رقم بلاتملیک کسی مصرف میں خرچ کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، نیز یہاں صاحبِ نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی میں سے کسی ایک کی مالیت تک پہنچ جائے۔
بصورتِ مسئولہ مسجد کی تعمیرات میں زکوۃ کی رقم خرچ کرنے سے عدمِ تملیک کی وجہ سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره،
(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة.
(قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر ."
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:344، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144210200447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن