بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں دینا


سوال

زکوۃ کا پیسہ  مدرسہ کے سالانہ جلسہ کےفنڈمیں جمع کراسکتے ہیں یانہیں؟  بندہ جمع کراتے وقت  وصول کرنے والے کو کہہ  دے کہ یہ پیسہ زکوۃ کاہے۔

جواب

زکوۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے  مالک بناکر دیا جائے،  زکات کے مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا قرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد  استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو، اور وہ سید/ ہاشمی نہ ہو۔

اب   مدرسہ  کے  سالانہ جلسہ   میں جو رقم جمع کرائی جاتی ہے،  اگر  اس سے مراد سالانہ جلسے کے اخراجات میں  تعاون کرنا ہے تو اگر اس موقع پر زکوۃ کی  رقم کسی مستحقِ زکوۃ کو مالک بنا کر نہیں دی جاتی تو اس   مد میں  زکوۃ دینا درست نہیں ہو گا، اور اگر  یہ مراد ہے کہ سالانہ جلسے کے موقع پر زکوٰۃ، صدقات وغیرہ تمام مدات میں چندہ ہوتا ہے، اس چندے میں زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟ تو اگر یہ جمع شدہ رقم شرعی ضابطے کے مطابق مستحق طلبہ پر خرچ کی جاتی ہے تو وہاں زکوٰۃ دینا درست ہوگا، تاہم اگر سالانہ جلسے میں چندے کا مقصد تشہیر ہو، یا اخلاقی دباؤ کے ذریعے چندہ کیا جاتا ہو، تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك (ص: 217):

"هي لغة: عبارة عن النماء، يقال: زكا الزرع: إذا نما، وقيل: عن الطهارة، قال الله تعالى:{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى}[الأعلى: 14]، أي تطهر.

وشرعاً: "إعطاء شقص من النصاب الحولي إلى فقير غير هاشمي ولا مولاه، بطريق التمليك، بشرط قطع المنفعة له من كل وجه لله تعالى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں