بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے بیٹے کو کاروبار کے لئے رقم دی، اب بیٹے کا کہنا ہے کہ والد نے بطور حصہ رقم دی تھی جبکہ والد منکر ہے


سوال

ہم دس بہن بھائی ہیں، جس میں آٹھ بھائی اور دو بہنیں ہیں ،اور والد اور والدہ دونوں اللہ کے فضل سے حیات ہیں ،اب ہمارے والد محترم نے عین دستور کے مطابق اپنا پیسہ اور کاروبار (جس میں دو یا دو سے زائد گاڑیاں بھی تھیں ) اپنے بڑے بیٹے کو کاروبار چلانے کی مد میں دیں، اور کاروبار میں اور گاڑیوں میں  جب فائدہ یا نقصان ہوتا اس میں سب شریک ہوتے تھے اور اکثر نقصان ہونے کی صورت میں والد صاحب اور ہم سب مل جل  کر اس نقصان کی کا حل کرتے تھے،  جب تک نقصان ہوتا رہا ہم سب شریک تھے ،پھر جیسے ہی کاروبار میں ترقی ہوئی تو اب بڑا بیٹا یہ کہتا ہے کہ:"جو مجھے والد صاحب نے دیا تھا وہ میں نے وراثت میں لے لیا ہے ،اور اب اس پر کسی بھی بہن بھائی کا کوئی حق نہیں ہے یہ سب میری ذاتی محنت ہے"۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب اس طرح بڑا بھائی باپ کے دیے ہوئے کاروبار کا وارث بن سکتا ہے؟ جب کہ والد ِ محترم حیات ہیں  اور وہ یہ سب کے سامنے بتا رہے ہیں کہ میں نے کسی کو کوئی بھی جائیداد یا کاروبار وراثت میں کبھی بھی نہیں دیا۔

جواب

واضح رہے کہ آدمی کا مال، اُس کی وفات پر وراثت کا مال بنتا ہے، زندگی میں نہیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد نے سائل کے مذکورہ بھائی کو اپنے  کاروبار کے لیے اپنے پیسے دیے تھے تو وہ کاروبار اور اس سے کمایا ہوا سارا پیسا والد کا شمار ہو گا، سائل کے   مذکورہ بھائی کا اس پیسے اور کاروبار کو اپنے وراثت کے حصے میں شمار کرنا یا   اس مال کا تنہا دعویٰ کرنا کہ یہ سب میرا ہے، یہ دعویٰ غلط اور باطل ہےاور اگر اس کا اصرار ہے کہ والد نے اسے یہ رقم مالکانہ طور پر دی تھی تو اس پر معتبر ثبوت یا دو شرعی گواہ پیش کرنا ضروری ہے، بغیر ثبوت کے اس کا دعویٰ قابل اعتبار نہیں ۔

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن ابي حرة الرقاشي عن عمه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال:لا يحل مال امرئ مسلم الا بطيب نفس منه"۔

(كتاب الغصب،باب من غصب لوحا،فادخله في سفينةاو بني عليه جدارا،ج:6،ص:166،رقم:11545،ط:دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی  میں  ہے

"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في  عيالهلکونہ معیناً لہ ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب الخ"۔

(کتاب الشرکۃ،فصل في الشرکة الفاسدة،ج:٤،ص:٣٢٥،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه"۔

(کتاب الفرائض،شرائط المیراث،ج:6،ص:758،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں