بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکلیف کا باعث بننے والی بلی کو مارنا


سوال

 میرے گھر میں پورچ میں بلی اپنے دو بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی، مگر گاڑی کے نیچے چھپے رہتے تھے، اور کونے میں جا کر جہاں ہماری پہنچ نہیں وہاں پاخانہ کردیتے تھے، جس کی بدبو سارے گھر میں آرہی تھی، بہت ڈرایا مگر نہ بلی اور نہ ہی بچے کہیں گئے، کل اچانک غصہ آنے پر ایک پتلی سی چھڑی سے اس کے ایک بچے کو بھگانے کے لیے کچھ زور سے لگ گئی اور وہ آج دن مر گیا، میں بہت پریشان ہوں ، اس کا کفارہ کیا ہے؟

جواب

 بلی یا کسی بھی جانور کو ستانا درست نہیں، بلکہ ایسا کرنا گناہ کا کام ہے۔ البتہ  اگر کوئی بلی   ایذا رسانی کا باعث  ہو ا تو ایسی بلی کو مار دینا جائز ہے، لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اس کو اس طریقے سے مارا جائے کہ  اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔

پس صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا بلی ایذا رسانی  کا سبب بن رہی تھی تو اسے مارنے کی اجازت تھی، لیکن ڈنڈی سے اس طور پر مارنا کہ ایک دن تک وہ تکلیف میں زندہ رہی اور پھر مرگئی، یہ مناسب نہیں تھا، چوں کہ سائل نے بالقصد اسے تکلیف دے کر نہیں مارا، بلکہ ویسے ہی مارا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی، لہٰذا اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں۔ اگر بالقصد اسے تکلیف دینے کے لیے مارا  تو اس پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اس کے علاوہ کفارہ نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الهرة إذا كانت مؤذيةً لاتضرب و لاتعرك أذنها بل تذبح بسكين حادٍّ، كذا في الوجيز للكردري."

( کتاب الکراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ٥ / ٣٦١،  ط: دار الفکر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں