بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شدید گرمی کی وجہ سے ظہر کی نماز گھر میں ادا کرنا


سوال

شدید گرمی کی وجہ سے ظہر کی نماز گھر پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

مردوں کے لیے  فرض نماز  جماعت کے ساتھ پڑھنا حکماً واجب ہے، اور مسجد  میں نماز ادا کرنا بھی حکماً واجب کے درجہ میں ہے؛ مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، چنانچہ  حدیث مبارک میں ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!  میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں، اور قسم ہے اس ذات کی  جس کے قبضے میں میری جان ہے! (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی، بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔

مختلف اعذار کی بنا پر جماعت سے نماز پڑھنے کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے،  لیکن ان اعذار میں سے فقہاء کرام نے سخت گرمی کو  ذکر نہیں کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمی میں ایک نماز  ظہر کی آتی ہے، اور ظہر کی نماز میں شرعاً مستحب یہ ہے کہ اس کو تاخیر سے پڑھا جائے؛ تاکہ گرمی کچھ کم ہوجائے، جب ظہر کو کچھ تاخیر سے پڑھا جائے گا تو گرمی کی شدت کم ہوجائے گی؛ اس لیے اس کو عذر میں شمار نہیں کیا گیا، لیکن اگر کسی جگہ ظہر کی نماز اول وقت میں ہوتی ہو اور گرمی اتنی سخت ہو کہ مسجد میں جماعت کے لیے جانے سے جان کی  ہلاکت یا ناقابلِ برداشت قسم کی تکلیف میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو یا بیمار ہونے یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو  ان عذر کی بنا پر  جماعت ترک کرنا جائز ہوگا، لیکن قابلِ برداشت گرمی کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔( مشکاۃ)

نیز یہ پہلو سامنے ہو تو گرمی میں بھی مسجد کی جماعت میں حاضر ہونا آسان ہوجائے گا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرب کی گرمی میں جمعہ کی نماز اولِ وقت میں ادا کیا کرتے تھے، مسجد تنگ اور نیچی ہونے کی وجہ سے لوگ پسینے میں شرابور ہوجاتے تھے، پھر بھی ان پاکیزہ نفوس نے جماعت ترک نہیں کی، رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ سامنے ہو تو عمل آسان ہوجائے گا۔ البتہ مخصوص صورتِ حال درپیش ہو تو اس کا حکم سابقہ سطور میں درج کیا جاچکا ہے۔

 اعلاء السنن میں ہے:

"قلت: دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ...".(4/186 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، إدارة القرآن کراچی)

وفیه أیضاً:

"قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم".(4/188)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 555):
(فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين  وبرد شديد وظلمة كذلك) وريح ليلاً لا نهارًا.

(قوله: وبرد شديد) لم يذكر الحر الشديد أيضًا، ولم أر من ذكره من علمائنا، ولعل وجهه أن الحر الشديد إنما يحصل غالبًا في صلاة الظهر، وقد كفينا مؤنته بسنية الإبراد، نعم قد يقال: لو ترك الإمام هذه السنة وصلى في أول الوقت كان الحر الشديد عذرًا، تأمل". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں