بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کے بیٹے کا مدرسہ سے کھانا کھانا اور وظیفہ لینا


سوال

ایک طالب علم کے والد سرکاری ملازم ہوں اور وہ طالب علم مدرسے میں کھانا کھاۓ اور وظیفہ لے  جب کہ  طالب علم نہ کوئی کام کرتا ہو نہ کوئی کاروبار ہو نہ اس کے پاس کوئی مال ہو تو کیا  حکم ہے اور اگر ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ والد  سرکاری ملازم صاحبِ نصاب ہو اور بچوں کا نان نفقہ ادا کرتا ہو اور اس کا بچہ نا بالغ ہو تو اس کا مدرسہ میں زکوۃ کے رقم یا صدقات واجبہ کی رقم سے کھاناکھانا اور وظیفہ لینا درست نہیں ہوگا اور اگر والد صاحبِ نصاب نہ ہو اور    بچہ نابالغ ہو یا  اس کا والد  اس کا خرچہ نہ اٹھاتاہو  یا وہ  عاقل بالغ ہو   اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو تو اس کا مدرسہ میں کھانا کھانا اور وظیفہ لینا درست ہوگا ۔

نابالغ  غریب بچے کو تین صورتوں میں زکات دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ بچہ سمجھ دار  اور عقل مند ہو، مال پر قبضہ اور ملکیت کو سمجھتا ہو:

(1)   بچے کا والد فقیر ہو۔ (2) بچہ یتیم ہو۔ (3) بچے کا والد اس کے نفقے کی ذمہ داری بالکل ادا نہ کرتاہو۔

اور اگر مدرسہ کا کھانا صدقات واجبہ یا زکاۃ کی رقم سے نہ ہو تو اس کا کھانابہر صورت  درست ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"ولايجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير، كذا في التبيين. ولو كان كبيراً فقيراً جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرةً، وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنياً؛ لأن قدر النفقة لايغنيها، وبغنى الأب والزوج لاتعد غنية، كذا في الكافي". (1/ 189)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں