بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمت کے اوقات میں ہیڈ ماسٹر کی اجازت سے مدرسے کے بچوں کو پڑھانا


سوال

میں سرکاری اسکول میں بحیثیت ٹیچر ملازم ہوں، اور مدرسے میں بھی پڑھاتا ہوں،اسکول میں روزانہ صبح آٹھ سے ایک بجے تک پڑھائی ہوتی ہے، میرے ذمہ تین کتابیں پڑھانی ہوتی  ہیں جن کے لیے صرف دو گھٹنے درکا ہوتے ہیں، باقی تین گھنٹے میں ویسے اسکول میں بیٹھا ہوتاہوں، کیا میرے لیے یہ درست ہے کہ باقی اوقات میں ہیڈماسٹر کی اجازت سے مدرسہ میں جاکر پڑھاؤں؟یا اسکول ٹائم کے پہلے دوگھنٹوں میں مدرسہ میں پڑھاکر، پھر بعد میں اسکول جاکر اپنی کتابیں پڑھاؤں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں مدرسہ کے طلبہ کو اسکول ٹائم میں اسکول بلاکر فارغ ٹائم میں ان کی کتابیں پڑھاؤں تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قانونی طور پر سرکاری اسکول  کے ہیڈ ماسٹر کو یہ اجازت ہو کہ وہ آپ کو اسکول کے اوقات میں اسکول کی ذمہ داریوں میں کوتاہی کیے بغیر کسی دوسری مشغولیت کی اجازت دے سکتا ہے تو اس صورت میں ہیڈ ماسٹر کی اجازت سے اپنے مفوضہ کام میں کوتاہی کیے بغیر آپ فارغ وقت میں مدرسے کے طلبہ کو پڑھا سکتے ہیں؛ چاہے جاکر پڑھائیں یاانہیں بلا کر پڑھائیں اور اگر ہیڈماسٹر کو قانونی طور پر آپ کو ملازمت کے اوقات میں دوسرے کام کرنے کی اجازت دینے  کا اختیار نہ ہو تو ملازمت کے اوقات میں آپ کا مدرسے کے طلبہ کو مدرسے جاکر  یا ان طلبہ کو اپنے پاس بلا کر  (دونوں صورتوں میں) پڑھانا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي: و إذا استأجر رجلًا يومًا يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضًا. و اتفقوا أنه لايؤدي نفلًا و عليه الفتوى. و في غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لايمنع في المصر من إتيان الجمعة، و يسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدًا، و إن قريبًا لم يحط شيء فإن كان بعيدًا و اشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله: و لو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم و هو يعلم فهو آثم، و إن لم يعلم فلا شيء عليه و ينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة، مبحث الأجير الخاص، ج6، ص70، ط : سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں