بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقتی فرض نماز کے ساتھ قضاء شدہ نمازوں کی قضاء کرنے کی وجہ سے وقتی نمازوں کی سنتیں چھوڑنے کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندے کے ذمے 20،15سالوں کی نمازیں قضا ہیں، اب وہ ہر نماز کے ساتھ ایک ایک ایک نماز قضا کرتا ہے،  مگر سنتیں ہر نماز کی پھر نہیں پڑھ پاتا سواۓ صبح کے اور مغرب کے،  کیوں کہ اس کا کام ایسا ہے کہ نماز کے  لیے کم وقت دیتے ہیں، آفس میں بھی پڑھنے کا ٹائم نہیں ملتا ، اور چھٹی بھی رات لیٹ ہوتی ہے ،  ایسی صورت میں نمازوں کی قضا  کرنا ٹھیک رہے گا یا سنتیں ادا کرنا؟

جواب

فرض نماز کو ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے، جس کے بارے  میں مختلف احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہے، اسی وجہ سے عاقل بالغ کے ذمے  مرنے سے پہلے فوت شدہ نمازوں کی قضا  کرنا ضروری ہے،  ورنہ آخرت میں اس کی وجہ سے عنداللہ بموجبِ احادیث  ماخوذ ہوگا، البتہ مذکورہ نمازوں کی قضا  کرنے  کی وجہ سے وقتی نمازوں میں صرف فرض نماز پر اکتفا کرنا اور  سنتِ مؤکدہ کو چھوڑ دینا درست نہیں، کیوں کہ  سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک بھی جائز نہیں ہے،  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا، لہذا مسلمان ہونے کے ناطے اور شکر خداوندی کے طور پر فرائض کے ساتھ ساتھ سنتِ مؤکدہ کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، اور اخروی عذاب سے بچنے کے  لیے قضا  شدہ فرض نمازیں بھی پڑھنا ضروری ہے،اس کے  لیے وقت نکالے، اگر ملازمت کے اوقات میں وقت نہیں ہے، تو فجر کی نماز سے پہلے اور بعد میں، اور شام اور رات کے اوقات میں پڑھ سکتا ہے،  اللہ تعالیٰ وقت میں برکت ڈال کر تمام تر مشکلات دور فرمالیں گے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها".

(کتاب الصلوۃ، الفصل الحادی والعشرون فی  التطوع قبل الفرض، ج:1، ص:446،  ط: دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں