بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پوسٹ مارٹم کی وصیت کا حکم


سوال

رضاکارانہ طور پر پوسٹ مارٹم کرانے کی وصیت کرنا کہ میری موت کے بعد میرا پوسٹ مارٹم کیا جائے،اس  کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  انسان اشرف المخلوقات  ہے ،اس لیے  شریعتِ مقدسہ نے ہر ایسے امر کو انسان کی حیات میں اور موت کےبعد  ممنوع قرار دیا ہے جس سے انسان کی توہین و تذلیل لازم آتی  ہو ،  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ کی ہڈی کو توڑنے کی طرح ہے،یعنی توڑنا گناہ ہے(ترجمہ از مظاہر حق) ۔بنا بریں پوسٹ مارٹم کی وصیت کرنا یا مردہ کا پوسٹ مارٹم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ،اور ایسی وصیت کرنا شرعاً باطل ہے۔

مرقاة المفاتيح   میں  ہے:

" وعن عائشة رضي الله تعالي عنها :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كسر عظم الميت ككسره حيا۔رواه مالك، وأبو داود، وابن ماجه.(وعن عائشة: أن رسول صلى الله عليه وسلم: قال " «كسر عظم الميت ككسره حيًّا» " يعني في الإثم كما في رواية. قال الطيبي: إشارة إلى أنه لايهان ميتًا، كما لايهان حيًّا. قال ابن الملك: و إلى أن الميت يتألم. قال ابن حجر: ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي اهـ. وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال: أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته. (رواه مالك وأبو داود) قال ميرك: وسكت عليه. (وابن ماجه) قال ميرك: ورواه ابن حبان في صحيحه اهـ. وقال ابن القطان: سنده حسن."

( كتاب الجنائز، باب دفن الميت،ج:3،ص:1226، ط: دار الفكر) 

فتاوی شامی میں ہے:

"يشترط لصحة الوصية عدم الكراهة."

(کتاب الوصایا ،ج:6،ص:690،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں