بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفل یا سنت نماز میں بے ترتیب قراءت کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص ظہر عصر اور عشاء کی چار رکعت سنت میں بھول کر پہلی رکعت میں سورۃ الناس پڑھ لے توباقی کی تین رکعتوں میں  پھر سورۃ البقرۃ سے پڑھے گا یا پھر کوئی بھی سورۃپڑھ سکتا ہے؟ اور اگر تین رکعتوں میں وہ سورۃ الناس کی دو دو آیات پڑھ لے یا پھر دو رکعتوں میں تین تین آیات پڑھ لے تو باقی رکعتوں میں کہاں سے پڑھنا چاہیے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ سنت (یانوافل)کی نمازوں میں قرآن کی ترتیب کے خلاف پڑھنامکروہ نہیں ہے البتہ ترتیب کے ساتھ پڑھنا بہترہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص ظہر، عصراورعشاء کی چار رکعت نفل یا سنت کی  پہلی رکعت میں بھول کر سورۃ الناس پڑھ لی توباقی تین رکعتوں میں کسی بھی جگہ سے پڑھا جاسکتا ہے ، قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا صرف فرائض میں ضروری ہے ،سنن ونوافل میں نہیں، البتہ افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں بھول کر سورۃ الناس پڑھ لی ہو تو بقیہ تمام رکعتوں میں سورۃ الناس ہی پڑھ لینی چاہیے۔

اور اگر پہلی رکعت میں بھولے سے سورۃا لناس پڑھ لی اور دوسری رکعت میں سورہ بقرہ شروع سے پڑھ لی تو یہ بلاکراہت جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اگر تکمیلِ قرآن کا موقع نہ ہو تو  دوسری رکعت میں بھی دوبارہ سورۃ الناس پڑھ لی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا بأس أن يقرأ سورة ويعيدها في الثانية، وأن يقرأ في الأولى من محل وفي الثانية من آخر... ويكره الفصل بسورة قصيرة وأن يقرأ منكوسا... ولا يكره في النفل شيء من ذلك) قوله: لا بأس أن يقرأ سورة إلخ أفاد أنه يكره تنزيها، وعليه يحمل جزم القنية بالكراهة، ويحمل فعله - عليه الصلاة والسلام - لذلك على بيان الجواز، هذا إذا لم يضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولى - {قل أعوذ برب الناس} [الناس: 1]- أعادها في الثانية إن لم يختم نهر لأن التكرار أهون من القراءة منكوسا بزازية."

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، فروع يجب الاستماع للقراءة مطلقا، ج:1، ص:546، ط:دار الفكر بيروت)

الجوهرۃ النيرۃ میں ہے: 

"وإذا قرأ في الأولى ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ يقرأ في الثانية ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ أيضاً."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:58، ط:المطبعة الخيرية مصر)

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"(ومنها القراءة) وفرضها عند أبي حنيفة - رحمه الله - يتأدى بآية واحدة وإن كانت قصيرةً. كذا في المحيط. وفي الخلاصة: وهو الأصح. كذا في التتارخانية. والمكتفي بها مسيء، كذا في الوقاية. ثم عنده إذا قرأ آيةً قصيرةً هي كلمات أو كلمتان نحو قوله تعالى : ﴿ثم قتل كيف قدر﴾ [المدثر: 20] ﴿ثم نظر﴾ [المدثر: 21] يجوز بلا خلاف بين المشايخ."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة وهذا الباب يشتمل، الفصل الأول في فرائض الصلاة، ج:1، ص:69، ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"ولو قرأ ‌بعض ‌السورة في ركعة والبعض في ركعة قيل يكره وقيل لا يكره وهو الصحيح. كذا في الظهيرية ولكن لا ينبغي أن يفعل ولو فعل لا بأس به."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الرابع في القراءة، ج:1، ص:78، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505102139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں