بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں آکرعورتوں کے نماز پڑھنےکاحکم


سوال

 ہمارے ملک برطانیہ میں حنفی علماء اب عورتوں کے مسجد میں آنے کے سلسلے میں تساہل کا معاملہ کرتے ہیں۔ بہت سی مسجدوں میں اب عورتیں آنے لگی ہیں۔ بعض علماء ایسا کہتے ہیں کہ فقہاء نے اس سلسلے میں یہ لکھا ہی نہیں ہے کہ عورتوں کا مسجد میں آنا ممنوع ہے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ فقہاء نے یہ لکھا تو ہے کہ عورتوں کا مسجد میں آنا ممنوع ہے لیکن اصل قرآن اور حدیث ہے نہ کہ فقہاء کی عبارت لہذا ہمیں عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینی چاہئے اس لئے کہ حدیث سے یہ ثابت ہے۔ میرا سوال اور اس استفتاء کا منشا یہ ہے کہ کیا حنفی عالم کو اس طرح کی باتیں کہنا مناسب ہے؟ اگر ہم بھی فقہاء کی عبارت کو نظر انداز کر کے قرآن اور حدیث کو دیکھیں گے تو پھر حنفی ہونے کا معنی رہا؟ مقلد ہونے کا معنی رہا؟ تقلید کا معنی تو یہی ہے کہ ہم اپنے فقہاء پر اعتماد کرتے ہیں کہ ان کے تمام اقوال قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہیں اور ان کا چونکہ تقوی اور نص فہمی ہم سے بہت زیادہ تھا اس لئے ہم ان کے اقوال پر اعتماد کر کے عمل کرتے ہیں۔ مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں اس سلسلے میں؟ کیا عورتوں کے لئے مسجد میں مردوں کی طرح جماعت میں آنا جائز ہے؟ اس سلسلے میں اگر کھل کر حکم بیان فرمائے تو احسان مند ہوں گا اس لئے کہ عوام اب تشویش میں مبتلا ہو رہے ہیں اور صرف حنفیت پر نہیں بلکہ تقلید پر زد پڑ رہا کہ ہمارے اکابر اور فقہاء عظام نے جس چیز کو آج تک نا جائز کہا ہے وہ اب جائز کیسا ہو گئی ہے؟ 

جواب

زمانہ مبارکہ میں  عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی ، وہ زمانہ خیر القرون کا تھا  فتنوں سے محفوظ تھا رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے،وحی ناز ل ہو تی تھی ، نئے  نئے احکام آتے تھے ، نئے مسلمان تھے نماز وغیرہ کے مسائل سیکھنے کی ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر  حضور ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہو تا تھا ،ان تمام باتوں کے باوجود عورتیں باجماعت نماز پڑھنے کی مکلف نہیں تھیں ، صرف اجازت تھی اور افضل یہ ہی تھا کہ عورتیں مکانوں میں چھپ کر اور تاریک تر کمرے میں (جہاں اجنبی  مردوں کی بالکل نظر نہ پرسکے ) نماز پڑھیں  اسکی بین دلیل حضرت ام حمید ساعد رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے  کہ   حضرت ام حمید رضی اللہ  عنہا نے بارگاہ نبوی ﷺ  میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کاشوق ہے ،  آپ ﷺ نے  فر مایا  تمہا را شوق بہت اچھا ہے   مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری  میں کمرے کی نماز سے  بہتر ہے ، اور کمرے کی  نماز گھر کے احاطہ کی نماز سے  بہتر ہے اور گھر کے احاطہ کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے   اور محلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد ( مسجد نبوی ) کی نماز سے بہتر ہے ،  حضرت ام حمید  رضی اللہ عنہا نے  اپنےکمرے کے آخری کو نے میں جہا ں  سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا  مسجد بنوائی وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں  یہاں تک کہ ان کا وصال ہو ا،بعد کے زمانے میں  عورتوں میں کچھ آزادی اور  خرابی  رونما ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے  عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا ،حضرات صحابہ رضوان اللہ عنم اجمعین  نے  اس سے اتفاق کیا ، ام المومنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  نے فقیہانہ جواب دیا لوادارك رسول الله صلي الله عليه وسلم مااحدث النساء لمنعهن  المسجد كما منعت نسآ ء بني اسرائيل،اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کی یہ حالت دیکھتے تو ان کو مسجد میں آنے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے ممانعت کر دی گئی تھی ،عنایہ شرح الہدایہ میں ہے‌وَلَقَدْ ‌نَهَى ‌عُمَرُ النِّسَاءَ عَنْ الْخُرُوجِ إلَى الْمَسَاجِدِ فَشَكَوْنَ إلَى عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - فَقَالَتْ: لَوْ عَلِمَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا عَلِمَ عُمَرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - مَا أَذِنَ لَكُنَّ فِي الْخُرُوجِ، فَاحْتَجَّ بِهِ عُلَمَاؤُنَا وَمَنَعُوا الشَّوَابَّ عَنْ الْخُرُوجِ مُطْلَقًا یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے  منع فرمایا تو عورتوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شکایت کی ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جن امور کا علم ہو ااگر یہ حضور ﷺ  کے سامنے یہ امور ظاہر  ہو تے تم کو ( برائے نماز )نکلنے کی اجازت مر حمت نہ فرماتے ہمارے علماء نے اسی  سے استدلال کیا ہے اور نوجوان عورتوں کو مطلقا نکلنے سے منع فرمایا  ،بدئع الصنائع میں ہے :"ولا يباح للشواب منهن الخروج إلى الجماعات، بدليل ما روي عن عمر - رضي الله عنه - أنه ‌نهى ‌الشواب عن الخروج؛ ولأن خروجهن إلى الجماعة سبب الفتنة، والفتنة حرام، وما أدى إلى الحرام فهو حرام.( کتاب الصلاۃ ، 157/1،دار الکتب العلمیۃ)ترجمہ :جوان عورتوں کو جماعت میں شریک ہو نے کے لیے نکلنا مباح نہیں ہے اس روایت کے پیش نظر جو حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے  جوان عورتوں کو  نکلنے سے  منع فرمادیا تھا اور اس وجہ سے عورتوں کا گھرو ں سے نکلنا فتنہ کا سبب ہے اور فتنہ حرام ہے  اور جو چیز حرام تک  پہنچائے وہ بھی حرام ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

"(وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ ٱلۡأُولَىٰۖ)     (سورۃ الاحزاب :33)"

سنن ابی داؤد میں ہے :

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «صَلَاةُ الْمَرْأَةِ ‌فِي ‌بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا ‌فِي ‌بَيْتِهَا»".

(سنن ابی داؤد،باب التشدید فی ذلک،156/1،المكتبة العصرية)

صحیح بخاری میں ہے :

"عن عمرة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌ما ‌أحدث ‌النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل» قلت لعمرة: أومنعن؟ قالت: نعم".

(باب خروج النساء الی المسجد بالیل والغلس،173/1،السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

صحیح ابن خزیمہ میں ہے :

"عن أم سلمة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌خير ‌مساجد ‌النساء قعر بيوتهن»".

وفیہ :

"عن عبد الله بن سويد الأنصاري، عن عمته، امرأة أبي حميد الساعدي أنها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني أحب الصلاة معك، فقال: «قد علمت أنك تحبين الصلاة معي، وصلاتك في بيتك ‌خير ‌من ‌صلاتك في حجرتك، وصلاتك في حجرتك ‌خير ‌من ‌صلاتك في دارك، وصلاتك في دارك ‌خير ‌من ‌صلاتك في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومك ‌خير ‌من ‌صلاتك في مسجدي» ، فأمرت، فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه، فكانت تصلي فيه حتى لقيت الله عز وجل".

وفیہ :

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن المرأة عورة، فإذا خرجت ‌استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون من وجه ربها وهي في قعر بيتها»".

(باب اختیار صلاۃ المراۃ فی حجرتھاالخ،95/93/92/3،المكتب الإسلامي)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله ‌ولا ‌يحضرن ‌الجماعات) لقوله تعالى {وقرن في بيوتكن} [الأحزاب: 33] وقال - صلى الله عليه وسلم - «صلاتها في قعر بيتها أفضل من صلاتها في صحن دارها وصلاتها في صحن دارها أفضل من صلاتها في مسجدها وبيوتهن خير لهن» ولأنه لا يؤمن الفتنة من خروجهن أطلقه فشمل الشابة والعجوز والصلاة النهارية والليلية قال المصنف في الكافي والفتوى اليوم على الكراهة في الصلاة كلها لظهور الفساد ومتى كره حضور المسجد للصلاة فلأن يكره حضور مجالس الوعظ خصوصا عند هؤلاء الجهال الذين تحلوا بحلية العلماء أولى. ذكره فخر الإسلام ".

(حضورھن الجماعات  ومجالس الوعظ،380/1،دار الكتاب الإسلامي)

حاشیہ طحطاوی میں ہے :

"ولا يحضرون الجماعات" لقوله صلى الله عليه وسلم: "صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها" اهـ فالأفضل لها ما كان أستر لها لا فرق بين الفرائض وغيرها كالتراويح۔۔۔والمخالفة" أي مخالفة الأمر لأن الله تعالى أمرهن بالقرار في البيوت فقال تعالى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 33] وقال صلى الله عليه وسلم: "بيوتهن خير لهن لو كن يعلمن".

(فصل فی بیان الاحق الامامۃ،304،دار الكتب العلمية)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے  منع فرمایا تو عورتوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شکایت کی ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جن امور کا علم ہو ااگر یہ حضور ﷺ  کے سامنے یہ امور ظاہر  ہو تے تم کو ( برائے نماز )نکلنے کی اجازت مر حمت نہ فرماتے ہمارے علماء نے اسی  سے استدلال کیا ہے اور نوجوان عورتوں کو مطلقا نکلنے سے منع فرمایا  ،بدئع الصنائع میں ہے :"ولا يباح للشواب منهن الخروج إلى الجماعات، بدليل ما روي عن عمر - رضي الله عنه - أنه ‌نهى ‌الشواب عن الخروج؛ ولأن خروجهن إلى الجماعة سبب الفتنة، والفتنة حرام، وما أدى إلى الحرام فهو حرام.( کتاب الصلاۃ ، 157/1،دار الکتب العلمیۃ)ترجمہ :جوان عورتوں کو جماعت میں شریک ہو نے کے لیے نکلنا مباح نہیں ہے اس روایت کے پیش نظر جو حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے  جوان عورتوں کو  نکلنے سے  منع فرمادیا تھا اور اس وجہ سے عورتوں کا گھرو ں سے نکلنا فتنہ کا سبب ہے اور فتنہ حرام ہے  اور جو چیز حرام تک  پہنچائے وہ بھی حرام ہے"۔

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ والجماعۃ،144/4،دار الاشعات)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں