بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشتری کا بائع کے اکاؤنٹ میں ثمن ادا کرنے کا حکم


سوال

 میں ایک  شخص کے ساتھ کاروبار کررہا تھا، آج سے دوسال پہلے وہ مجھے مال دیتا تھا، میں اس کے اکاؤنٹ میں اپنی پارٹیوں کے توسط سے روپے جمع کرتا تھا اور ڈپازٹ رسید جس سے مال لے رہا تھا اس کو واٹسپ پر بھجواتا تھا، ابھی تقریبا دوسال کےبعد وہ بول رہا ہے کہ اس میں چند ڈپازٹ سلپ کے روپے میرے اکاؤنٹ میں نہیں آئے ہیں  ،میں نے اپنی پارٹیوں سے رابطہ کیا، ان  کو بتایا کہ یہ روپے اکاؤنٹ میں  نہیں آئے ہیں، انہوں  نے چیک کرلیا کہ رقم واقعی نہیں آئی ہے اب میری پارٹیاں بول رہی ہیں کہ ہم کو بھی یہ ڈیپازٹ سلپ کسی اور پاٹیوں نے دیا ہے مختصر سی بات وہ لوگ مجھے بدلے میں اور رقم نہیں دے رہے ہیں بوجہ زیادہ مدت گزرنے کے، کوئی بولتا ہے کہ ہمارے پاس دوسال پہلے کا ریکارڈ ہی نہیں ہم اسی وقت ختم کرلیتے ہیں اور حالانکہ کاروباری اصول سے بنک میں اسی دن یا ایک دودن بعد ڈیپازٹ سلپ  چیک کرلینا لازمی ہے اکثر ایسا ہوجاتاہے کہ بنک والے کوئی غلطی کرتے ہے چیک کرنے پر پتہ چل جاتاہے کہ رقم کیوں نہیں آئی اب یہ بندہ دوسال کے بعد بتا رہاہے کہ فلاں  فلاں رقم نہیں آئی میرے اکاؤنٹ  میں اور مجھے کوئی اس کا بدل نہیں دے رہا ،کیا اس بندے کا حق مجھ پر ابھی بنتا ہے کہ میں اس کو رقم دےدوں  یا نہیں کیوں کہ مجھے کوئی بھی پارٹی رقم دینے کو تیار نہیں ، بتا رہے ہیں کہ آپ کو اسی وقت معلوم کرنا چاہیے تھا بینک میں ۔

جواب

واضح رہےجس طرح بائع کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مشتری کو مبیع حوالہ کرے اسی طرح مشتری کے ذمہ بھی لازم ہے کہ بائع کو ثمن حوالہ کرے ۔

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے کاروبار کرنے والے (بائع ) کے اکاؤنٹ میں اپنی پارٹیوں کے ذریعے سے پیسے  (رقم ) بھیج دیے  اور وہ رقم  کاروبارکرنے والے  (بائع) کے اکاؤنٹ میں نہیں آئی اور یہ بات ثابت بھی ہوگئی ہے، تو اب  تو سائل (مشتری )،  بائع  کو ثمن ادا کرنے والا شمار  نہ ہوگا ،  لہذا سائل  (مشتری)  پر  (بائع ) کاروبا ر کرنے والے  کو مذکورہ  رقم  دینا لازم   ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الأول: فهو ثبوت الملك للمشتري ‌في ‌المبيع، وللبائع في الثمن للحال."

(فصل في حكم البيع، ج: 5، ص: 233، ط: دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"(وأما) تفسير التسليم، والقبض فالتسليم، والقبض عندنا هو ‌التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما ‌للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائٓع."

(كتاب البيوع، ج: 5، ص: 244، ط: دارالكتب العلمية)

فقہ البیوع میں ہے:

"ربما یقع تسلیم النقود عن طریق التحویل المصرفي (Bank Transfer)،وذلك بأن یکون لزید رصید فی حسابه الجاری (Current Account)لدی بنك ألف، ولعمرو رصید فی حسابه الجاری(Current Account) لدی بنك ب، فیأمر زید بنك ألف أن یحول مبلغا الی رصید عمرو فی بنک ب. فحینما یدخل المبلغ فی رصید عمرو فی بنك ب، یعتبر عمرو قابضا لتلك النقود."

(الباب الثالث في أحكام المبيع و الثمن و ما يشترط فيهما لجواز البيع،المبحث الثالث في الطرق المختلفة لأداء الثمن ،ج: 1، ص: 428، ط: مكتبه معارف القرآن) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں