بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منفرد نمازی کے لیے اذان و اقامت کہنے کا حکم


سوال

میں عرصہ 5 سال سے مفلوج ہوں اور بستر پر ہوں ، لیٹ کر تیمیم کر کے نماز ادا کرتا ہوں اور مسجد سے بھی اذان کی آوازاکثر سنائی نہیں دیتی ۔ کیا میں ثواب کی نیت سے اور  جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے اذان اور اقامت یعنی تکبیر پڑھ سکتا ہوں؟اور کیا اس سے مجھے با جماعت نماز کا ثواب ملے گا؟

جواب

واضح رہے کہ منفرد نمازی کے لیے اذان کا حکم یہ ہے کہ منفرد نمازی کے لیے علاقہ کی اذان ہی کافی ہے دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے ، بغیر اذا ن دیے بھی نماز صحیح ہوجائے گی ، البتہ افضل یہ ہے کہ اذان دے کر  نماز پڑھی جائے ۔

رہی بات اقامت کی تو اقامت کہنا باجماعت نماز پڑھنے والے مردوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے ، منفرد  پر اقامت کہنے کا حکم نہیں ہے ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اکیلے ہی نماز پڑھ رہے ہیں تو ثواب کی نیت سے اذان تو دے سکتے ہیں،  لیکن  چوں کہ اقامت صرف باجماعت نماز کے موقع پر سنت مؤکدہ ہے؛  لہٰذا اکیلے نماز پڑھنے کی صورت میں اقامت نہیں دی جائے گی۔

باقی رہا یہ سوال کہ اکیلے نماز پڑھنے کی صورت میں جماعت کا ثواب ملے گا یا نہیں تو واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ جو شخص بیمار ہوجاتا ہے تو اس کو حالتِ بیماری میں بھی اُ ن تمام عبادات کا ثواب مل رہا ہوتا ہے جو عبادات وہ صحت کے زمانہ میں کیا کرتا تھا ۔لہٰذا اگر آپ صحت کے زمانہ میں باجماعت نماز پڑھنے کے عادی تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کو حالتِ بیماری میں بھی باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا ۔

اور تیمم کے جواز و عدمِ جواز کا تعلق اس بات سے ہے کہ اگر آپ کے لیے پانی کا استعمال مضر ہو اور ماہردین دار ڈاکٹر نے پانی کے استعمال سے منع کیا ہو تو تیمم درست ہوگا، بصورتِ دیگر وضو کرنا ضروری ہوگا، کسی برتن میں پانی لے کر بستر کے پاس رکھ لیا کریں، اور کم از کم وضو کے فرائض پورے کرکے نماز ادا کیا کریں، خود ممکن نہ ہو تو وضو  کے لیے کسی سے مدد لے لیا کریں۔

حدیث شریف میں ہے : 

"قال رسول الله ﷺ: إذا مرض العبد أو سافر كتب له مثل ما كان يعمل مقيمًا صحيحًا."

(صحيح البخاري:کتاب الجھاد ، باب یکتب للمسافر مثل ما کان یعمل في الإقامة، (2 / 420) ، ط: قديمي )

فتاوی شامی میں ہے:

«(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردا (وكذا تركها) لا تركه»لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه. 

(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى."

(کتاب الصلاۃ باب الاذان ، (1 / 394 ) ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأذان سنة لأداء المكتوبات بالجماعة، كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: إنه واجب، والصحيح أنه سنة مؤكدة، كذا في الكافي. وعليه عامة المشايخ، هكذا في المحيط. ... وليس على النساء أذان ولا إقامة، فإن صلين بجماعة يصلين بغير أذان وإقامة، وإن صلين بهما جازت صلاتهن مع الإساءة، هكذا في الخلاصة".(53/1)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 78):

"و" كذا "الإقامة سنة مؤكدة" في قوة الواجب؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم و ليؤمكم أكبركم"، وللمدوامة عليهما "للفرائض"، ومنها الجمعة؛ فلايؤذن لعيد واستسقاء وجنازة ووتر".

  فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں