بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت دلوانے پر ہر ماہ تنخواہ میں سے حصہ وصول کرنا


سوال

اگر کوئی آدمی کسی سے یہ شرط رکھے کہ میں تم کو ایک مسجد میں امامت کے لیے  لگاتا ہوں لیکن مجھے اپنی تنخواہ میں سے ہر مہینے میں اتنی رقم دو گے، تم اگر اس شرط پر راضی ہو تو میں تم کو لگاتا ہوں، یا کسی اور کام میں، مثال کے طور پر میرا ایک دکان دار دوست ہے،  اُس کو ایک شاگرد چاہیے،  میں آپ کی سفارش کروں گا،  لیکن مجھے اپنی دیہاڑی یا تنخواہ  میں سے ہزار  یا دو ہزار رقم دوگے، اس طرح کی شرط جائز ہے یا نہیں؟

جواب

سوال میں نوکری دلوانے کے بعد اُس پر ہر ماہ تنخواہ میں سے کمیشن یا اجرت وصول کرنے کی جو صورت ذکر کی گئی ہے یہ صورت شرعاً جائز نہیں ہے، تا ہم اگر کوئی شخص ملازمت کے امید وار (خواہ امامت کے لیے ہو یا کسی دوسرے منصب کے لیے، اُس ) سے یہ معاہدہ کر لے کہ میں  تمہیں ملازمت دلوانے پر  (جو محنت اور عمل کروں گا) ایک مرتبہ  (اس کی) اتنی متعینہ اجرت لوں گا تو کسی شخص کی ملازمت لگوانے کی صورت  میں اس کے لیے صرف ایک مرتبہ متعینہ اجرت لینا جائز ہوگا،  لیکن ایک مرتبہ اجرت لینے کے بعد ہر ماہ ملازم کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اسی طرح ملازمت کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة ... ومنها بيان محل المنفعة ... ومنها بيان العمل في استئجار الضياع، وكذا بيان المعمول فيه في الأجير المشترك بالإشارة والتعيين، أو بيان الجنس والنوع والقدر والصفة في ثوب القصارة والخياطة، وبيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل والإبل والبقر والغنم وعددها، وأما في حق الأجير الخاص فلا يشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته وإنما يشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استئجار الظئر شرط الجواز بمنزلة استئجار العبد للخدمة. ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا."

(کتاب الإجارۃ،الباب الاول، جلد:4، صفحہ: 411، ط: رشيديه)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما‌‌ شروط الأجرة فهي اثنان:

‌‌أولاً ـ أن تكون الأجرة مالاً متقوماً معلوماً ۔۔۔ وأما‌‌ الشرط العائد لركن العقد:

فهو‌‌ أن يخلو العقد من شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه."

(القسم الثالث، العقود ، الفصل الثالث، شروط الاجرۃ، جلد:5، صفحہ: 3827، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں