بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤمن کے ماہ وسال نامی کتاب میں عمروبن العاص اورمغیرہ بن شعبہ سے متعلق الزام کی تحقیق


سوال

سوال یہ ہے کہ مؤمن کے ماہ و سال نامی کتاب کے بارے میں یہ پوچھنا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ نمبر 38 میں ایک عبارت موجود ہے، جس میں دو صحابہ کرام کے متعلق یعنی عمرو بن عاص اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق الزام عائد کیا گیا ہے، اس کے متعلق تحقیق درکار ہے۔

جواب

مؤمن کےماہ وسال نامی کتاب اصل میں اردوترجمہ ہے شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمہ اللہ کی عربی کتاب "ماثبت بالسنة في أیام السنة"  کا،اس كتاب کاایک تحقیقی نسخہ حضرت علامہ ڈاکٹرمحمدعبدالحلیم نعمانی رحمہ اللہ کی نگرانی میں شائع ہواہے،اس کےمقدمہ میں لکھاہےکہ اس کتاب کااکثرمواددوسری کتب سےماخوذہے:

"الكتاب أكثره منقول من الكتب السابقة."

اسی طرح یہ بھی لکھاہےکہ بعض اوقات اس کتاب کومطالعہ کرنےوالےکےدل میں یہ بات آتی ہے کہ کاش مصنف اپنی  عظیم المرتبت اوروسیع العلم ہونےکےباوجودکتاب میں ایسی باتیں نہ ذکرکرتے،تویہ کتاب اوربھی عمدہ ہوجاتی،چنانچہ لکھاہے:

"و قديخطر ببال القارئ أن المصنف على جلالة قدره و غزارة علمه ملأ كتابه بأشياء لولم يذكرها لجاء في صورة حسنة."

ان نقول سےصاف معلوم ہوتاہےکہ اس طرح کےاقوال مصنف رحمہ اللہ کی اپنی رائےنہیں ہے،بلکہ دیگراہلِ علم کےاقوال اورآراء ہیں۔

نیزمذکورہ واقعہ محولہ بالاکتاب کےاصل عنوان کےمطابق بھی نہیں ہےجیساکہ اوپرمعلوم ہواکہ کتاب کااصل نام "ماثبت بالسنۃ فی ایام السنۃ"ہے،یہ واقعات ذخیرہ سنت سےثابت نہیں ہیں،بلکہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ -جوکہ ایک تابعی ہیں-اُن کی طرف منسوب ہےاوریہ نسبت بھی تاریخ کی بعض مخصوص کتابوں میں ہی ملتی ہے،جبکہ بعض معتبرنقول میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سےمشاجرات صحابہ کےبارےمیں سکوت اوربحث ومباحثہ سےلاتعلقی اوراجتناب کاطرزِ عمل واضح طور پر ثابت ہے،اسی وجہ سےہمارےہاں بھی ان کامؤخرالذکربیان اُن کےزہدوورع کےزیادہ قریب اورراجح سمجھاجاتا ہے،ہمارےلیےبھی اسی میں عافیت ہے،اور یہ رائے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے:

تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ-وَ لَا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(البقرة 141)

غرض کہ یہ مشاجراتِ صحابہ کرام میں سےہے،ان کی تحقیق وغیرہ کرنےسےاجتناب کرناچاہیے؛کیوں کہ اللہ تعالی نےقرآن مجیدمیں اعلان کردیاہے:"رضي الله عنهم ورضواعنه."یعنی اللہ تعالی ان سےراضی ہے،اورصحابہ کرام اللہ تعالی سےراضی ہیں،پھرکسی کوان کےبارےمیں گفتگو اور فیصلہ کرنےکی اجازت نہیں ہے۔

اللہ تعالی کاکلام قرآن مجید ہی کسی قسم کی غلطی اورشک وشبہ وغیرہ تمام چیزوں سےپاک ہے،اس کےہرہرحرف کی تصدیق کرنا،اوراس پرایمان رکھنا ضروری  ہے،باقی کسی امتی  کی لکھی ہوئی کوئی کتاب ہو،تو وہ خطاوسہوسےپاک ہوناضروری نہیں ہے۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"وقد سئل بعضهم عن الدماء التي أريقت فيما بينهم فقال:" تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ولا تسئلون عما كانوا يعملون" «1» [البقرة: 141]. وسيل بعضهم عنها أيضا فقال: تلك دماء طهر الله منها يدي، فلا أخضب بها لساني. يعني في التحرز من الوقوع في خطأ، والحكم على بعضهم بما لا يكون مصيبا فيه. قال ابن فورك: ومن أصحابنا من قال إن سبيل ما جرت بين الصحابة من المنازعات كسبيل ما جرى بين إخوة يوسف مع يوسف، ثم إنهم لم يخرجوا بذلك عن حد الولاية والنبوة، فكذلك الأمر فيما جرى بين الصحابة. وقال المحاسبي: فأما الدماء فقد أشكل علينا القول فيها باختلافهم. وقد سئل الحسن البصري عن قتالهم فقال: قتال شهده أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وغبنا، وعلموا وجهلنا، واجتمعوا فاتبعنا، واختلفوا فوقفنا. قال المحاسبي: فنحن نقول كما قال الحسن، ونعلم أن القوم كانوا أعلم بما دخلوا فيه منا، ونتبع ما اجتمعوا عليه، ونقف عند ما اختلفوا فيه ولا نبتدع رأيا منا، ونعلم أنهم اجتهدوا وأرادوا الله عز وجل، إذ كانوا غير متهمين في الدين."

(سورة الحجرات، الأية:٩،  ٣٢٢/١٦،ط:سعيد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال عمر بن عبد العزيز: تلك دماء طهر الله أيدينا منها فلا نلوث ألسنتنا بها .قال النووي - رحمه الله: كان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا في الخطأ ; لأنه كان بالاجتهاد، والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي - رضي الله عنه - هو المحق المصيب في تلك الحروب، وهذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهة، حتى إن جماعة من الصحابة تحيروا فيها، فاعتزلوا الطائفتين ولم يقاتلوا، ولو تيقنوا الصواب لم يتأخروا عن مساعدته."

(كتاب الفتن،٣٣٩٨/٨،ط:دار الفكر، بيروت)

ماثبت بالسنة في أيام السنةکی عبارت درج ذیل ہے:

"قال الحسن البصري: ‌أفسد ‌أمر ‌الناس ‌اثنان: عمرو بن العاص يوم أشار على معاوية برفع المصاحف فحملت، ونال من القراء، فحكم الخوارج، فلا يزال هذا التحكيم إلى يوم القيامة. والمغيرة بن شعبة، فإنه كان عامل معاوية على الكوفة فكتب إليه معاوية: إذا قرأت كتابي فأقبل معزولًا، فأبطأ عنه فلما ورد عليه قال: ما أبطأ بك؟ قال: أمر كنت أوطئه وأهيئه، قال وما هو: قال: البيعة ليزيد من بعدك قال: أو قد فعلت؟ قال: نعم، قال: ارجع إلى عملك، فلما خرج قال له أصحابه؟ ما وراءك؟ قال: وضعت رجل معاوية في غرز غي لا يزال فيه إلى يوم القيامة."

(ذكرشهرالمحرم،ص:٣١،مطبوعة دهلي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں