بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں قرآن مجید کھول کر پڑھنے سے کیا قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ملتا ہے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لوگ مدرسہ کے طلباء کو گھروں میں لے جاتے ہیں اور قرآن خوانی کرواتے ہیں ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں قرآن خوانی موبائل میں موجود قرآن  کھول کر اس سے  کراتے ہیں۔

کیا موبائل میں موجود قرآن سے وہی فضیلت حاصل ہوتی ہے، جو فضیلت قرآن سے پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے؟

اور یہ مسئلہ عام ہو چکا ہے اور ہر  جگہ ایسا ہی کرتے ہیں۔

جواب

موبائل میں قرآنِ مجید   کی تلاوت کرنا  جائز ہے،   باقی قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا  یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، جن کا مکمل حصول  موبائل میں  قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی صورت میں  نادر ہے ، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، پس   جہاں سہولت سے قرآن مجید میسر  ہوں وہاں موبائل کے بجائے مصحف سے قرآنِ مجید پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، تاہم اس صورت میں بھی قرآن مجید کی تلاوت موبائل میں دیکھ کر نا ناجائز نہیں ہوگا، کیوں کہ تلاوت کلام مجید کے ثواب کا مدار قرآن مجید پڑھنے پر ہے،  یعنی تلاوت  کا ثواب پڑھنے والے کو اور جس کو ایصالِ ثواب مقصود ہو اس کو ہوتا ہے، خواہ تلاوت زبانی کی جائے، یا مصحف، یا موبائل میں دیکھ کر  کی جائے۔

ملحوظ  رہے کہ موبائل کی اسکرین پر   قرآنِ کریم اگر  کھلا ہوا ہو تو  اس  (اسکرین) کو  وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہوتا، البتہ اسکرین کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  وضو کے بغیر چھوا جا سکتا ہے۔

قرآن خوانی کے حکم کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

قرآن خوانی کا حکم

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى... الخ

(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل".

(۱/ ۱۷۳، کتاب الطھارۃ،١ / ١٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411100393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں