بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے پاس امانت ہونے کا دعوی کرنے کی صورت میں حکم


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ،جب وہ آئی سی یو میں تھے تو میرے شوہر کی بہن نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے چار لاکھ روپے میرے شوہر کے پاس رکھوائے تھے ،لیکن میرے شوہر نے مجھے کبھی اس بارے میں نہیں بتایا ،اور نہ ان کی بہن نے اپنے بھائی کے سامنے مجھ سے کبھی اس بات کا ذکر کیا ،تو کیا میں ان کو وہ پیسے واپس کرنے کی پابند ہوں یا نہیں ؟اس بارے میں شرعی راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کی نند(شوہر کی بہن) نے سائلہ کے مرحوم  شوہر  پر چار لاکھ روپے بطور امانت رکھوانے   کا دعوی کیا ،اور سائلہ کے مرحوم شوہر کے دیگر  ورثاء میں سےسائلہ سمیت کوئی اس کا اقر ار بھی نہیں کرتا ،تو ایسی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ   فریقین (سائلہ اور اس کی نند) اپنا معاملہ کسی  مستند عالم ِدین یا مفتی صاحب  کے پاس لے جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ثالث مقرر کریں ،پھر سائلہ کی نند   مدعی کی حیثیت سے   ان کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کریں   کہ انہوں نے اپنے بھائی (سائلہ کے شوہر) کے پاس چار لاکھ روپے بطور امانت کے رکھوائے تھے ،جو کہ مرحوم نے اپنی زندگی میں واپس نہیں کیے ، لہذااب مرحوم بھائی کے ترکہ سے ان کو مذکورہ رقم دلوائی جائے   ، ثالث ان   سے اس  دعوی پر دو گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ پیش کردیں ، تو  ان کے قول کے مطابق ثالث   فیصلہ دے دےگا،اور پھروارثوں پر میت کے ترکہ کو تقسیم کرنے سے پہلے اس میں  سے  مذکورہ رقم  کی ادائیگی   لازم ہوگی، اور اگر  مدعی(سائلہ کی نند) شرعی گواہ  پیش کرنے میں ناکام ہوجائیں ، تو مدعی علیہ(سائلہ اور مرحوم کے دیگر ورثاء    )   پر مدعی کےمطالبہ پر قسم آئے گی  ،اگرسائلہ اور مرحوم کے دیگر ورثاء  اس بات پر   قسم کھالیں   کہ ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ  سائلہ کی نند نے سائلہ کے مرحوم شوہر کے پاس مذکورہ رقم بطور امانت رکھوائی تھی ،اور نہ ہمیں اس بارے میں مرحوم نے اپنی زندگی میں کچھ بتا یا تھا،توپھر  ثالث سائلہ  اور مرحوم کے دیگر ورثاء  کے حق میں فیصلہ کردے گا،اور اس  کے بعد سائلہ کی نند  کو  سائلہ  یا کسی اور وارث سے مذکورہ  امانت کی واپسی کا  مطالبہ کرنے  کا حق نہیں رہے گا۔

فتاوٰ ی ہندیہ میں ہے:

"إن وقعت الدعوى على فعل المدعى عليه من كل وجه بأن ادعى عليه إنك سرقت هذا العين مني أو غصبت يستحلف على البتات، وإن وقعت الدعوى على فعل الغير من كل وجه يحلف على العلم، حتى لو ادعى المدعي دينا على ميت بحضرة وارثه بسبب الاستهلاك أو ادعى أن أباك سرق هذا العين مني أو غصبه مني يحلف الوارث على العلم وهذا مذهبنا كذا في الذخيرة."

(كتاب الدعوٰی، الباب الأول في تفسير الدعوى وركنها وشروط جوازها وحكمها وأنواعها،الفصل الثاني في كيفية اليمين والاستحلاف، ج:4،ص:22، ط: دار الفکر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا."

(كتاب الدعوٰی، سبب الدعوٰى، ج:5،ص:552،ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وفي شرحه) : أي: شرح مسلم (للنووي) : يجوز قصره ومده (أنه قال: وجاء في رواية البيهقي بإسناد حسن، أو صحيح، زيادة عن ابن عباس مرفوعا) : الظاهر مرفوعة (لكن البينة) : بالوجهين (على المدعي) : في المغرب: البينة الحجة فيعلة من البينونة، أو البيان (واليمين) : بالوجهين (على من أنكر) : قال النووي: ‌هذا ‌الحديث ‌قاعدة ‌شريفة ‌كلية ‌من ‌قواعد ‌أحكام ‌الشرع، ففيه أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه، فإن طلب يمين المدعى عليه فله ذلك."

(باب الأقضية والشهادات،ج:6،ص:2439،ط:دار الفكر)

      اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

(کتاب الدعویٰ،ج:15،ص:350 ط: إدارۃ القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں