بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد سے راستہ نکالنا/ عیدگاہ پر مدرسہ بنانا


سوال

1۔کوئی جگہ قبرستان یا مسجد کے لیےوقف کی گئ ہو اور ابھی تک اُس جگہ پر مسجد یا قبرستان بنایا نہیں ہے اور ہمیں وہاں سے راستہ کی ضرورت ہے کیا ہم وہاں سے راستہ نکال سکتے ہیں ؟؟

2۔ ایک عید گاہ جس پر عرصہ سے عید نماز پڑہی جارہی ہے اہل محلہ اجازت دیں تو کیا وہاں بچوں کی دینی تعلیم کہ لیۓ مدرسہ بنا سکتے ہیں ؟؟

3۔جو لوگ عام صدقہ کرتے ہیں بکرے کا یا گاۓ کا آیا یہ  صدقے کا گوشت دینا ضروری ہے یا اس کو بیچ کر پیسے دیے جا سکتے ہیں؟

جواب

1:مسجد یا قبرستان کی وقف زمین میں راستہ نکالنا درست نہیں  ہے۔

وفی الفتاوی الہندیۃ لمولانانظام وجماعتہ ؒ:

" إن أرادوا أن يجعلوا شيئا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط."

(کتا ب الوقف،الباب الحادی عشر فی المسجد ومایتعلق بہ ،ج:۲،ص:۴۵۷،ط:ماجدیۃ)

وفيہ ايضا:

" قيل له: فإن تداعت حيطان المقبرة إلى خراب يصرف إليها أو إلى المسجد قال: إلى ما هي وقف عليه إن عرف وإن لم يكن للمسجد متول ولا للمقبرة فليس للعامة التصرف فيها بدون إذن القاضي، كذا في الظهيرية."

(كتاب الوقف،الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر،ج:۲،ص:۴۷۶،ط:ماجدیۃ)

وفیہ ایضاً:

" سئل القاضي الإمام شمس الأئمة محمود الأوزجندي عن مسجد لم يبق له قوم وخرب ما حوله واستغنى الناس عنه هل يجوز جعله مقبرة؟ قال: لا. وسئل هو أيضا عن المقبرة في القرى إذا اندرست ولم يبق فيها أثر الموتى لا العظم ولا غيره هل يجوز زرعها واستغلالها؟ قال: لا، ولها حكم المقبرة، كذا في المحيط فلو كان فيها حشيش يحش ويرسل إلى الدواب ولا ترسل الدواب فيها، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر،ج:۲،ص:۴۷۰ ،ط:ماجدیۃ)

۲:عیدگاہ کےلیے وقف جگہ پر مدرسہ بنانا جائز نہیں ۔

وفی الہندیۃ لمولانا نظام وجماعتہؒ:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف،الباب الثانی فیما یجوز  وقفہ ومالایجوز۔۔ج:۲،ص:۳۶۲،ط:ماجدیۃ)

وفی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ لابن عابدین ؒ:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة....الخ."

(کتاب الوقف ،ج:۱،ص:۱۲۶،ط:حقانیۃ)

وفی رد المحتار لابن عابدینؒ:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة......الخ."

( كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة،ج:۴،ص:۴۴۵،ط:سعید)

(۳)۔۔۔جہاں غریبوں کو جس چیز کی زیادہ ضرورت ہو  وہی کیاجائے ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں