ایک شخص نے زمین کا ایک پلاٹ ایک ادارہ کو وقف کیا تاکہ اس میں ختم نبوت کی حفاظت کے مقصد کے لیے مسجد تعمیر کی جاۓ چنانچہ اس میں ختم نبوت مسجد بھی ادارہ نے تعمیر کی۔ اب واقف زمین زمین کا وہ پلاٹ دوسرے ادارہ کو وقف کرنے جارہا ہے۔ تو کیااسلام میں وقف پر وقف جائز ہے؟
واضح رہے کہ جب کوئی زمین مسجد کے لیے وقف کر دی جائے تو اس سے واقف کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے، اب واقف اس کو اپنی ملکیت میں واپس نہیں لے سکتا اور نہ مسجد کی حیثیت کو ختم کر کے کسی اور جہت(مصرف)کے لیے وقف کرسکتا ہے، البتہ مسجد کی تولیت کے معاملہ میں واقف کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ خود متولی بنے یا کسی اور کو متولی بنائے اور واقف کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو پہلے متولی کو معزول کرکے دوسرے شخص کو متولی بنا دے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب متولی اپنی تولیت کی ذمہ داری کی اہلیت کھو دے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ واقف مسجد کی حیثیت کو ختم کرکے کسی دوسرے جہت (مصرف ) میں وقف کر کے کسی دوسرے ادارہ کو سپرد کرنا چاہتا ہے تو اس کی شرعاً اجازت نہیں ہوگی، یہ جگہ ایک مرتبہ مسجد کے لیے وقف ہوگئی تو اب مسجد کے لیے ہی رہے گی۔
اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ مسجد کا متولی تبدیل کرنا چاہتا ہے یعنی ابتداء میں ایک ادارہ کو متولی بنایا تھا اور اب دوسرے ادارہ کو متولی بنانا چاہتا ہے تو واقف کو اس کا اختیار ہوگا البتہ اگر پہلے ادارہ والے اپنا کام درست طریقہ سے انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے اس مسجد کی تعمیرات کا کام بھی کروایا ہے تو بلا وجہ یعنی بغیر کسی خیانت اور بغیر کسی معقول وجہ کے ان کی تولیت ختم نہ کرے بلکہ ان کو اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے دے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغة الحبس. وشرعا (حبس العين على) حكم (ملك الواقف والتصدق بالمنفعة) ولو في الجملة» والأصح أنه (عنده) جائز غير لازم كالعارية (وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة.
(قوله وعليه الفتوى) أي على قولهما يلزمه. قال في الفتح: والحق ترجح قول عامة العلماء بلزومه؛ لأن الأحاديث والآثار متظافرة على ذلك، واستمر عمل الصحابة والتابعين ومن بعدهم على ذلك فلذا ترجح خلاف قوله اهـ ملخصا."
(کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۳۷، ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه).
(قوله: ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره."
(کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۵۵، ایچ ایم سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وقف ضيعة له وأخرجها من يده إلى قيم ثم أراد أن يأخذها من يده فإن كان شرط لنفسه في الوقف أن له العزل والإخراج من يد القيم كان له ذلك وإن لم يكن شرط ذلك فعلى قول محمد - رحمه الله تعالى -: ليس له ذلك، وعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -: له ذلك، ومشايخ بلخ رحمهم الله تعالى يفتون بقول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وبهذا أخذ الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - وبه يفتى كذا في المضمرات."
(کتاب الوقف ، باب الخامس ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۰۸، دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہےـ:
"للواقف عزل الناظر مطلقا، به يفتى.
(قوله: للواقف عزل الناظر مطلقا) أي سواء كان بجنحة أو لا وسواء كان شرط له العزل أو لا وهذا عند أبي يوسف لأنه وكيل عنه وخالفه محمد كما في البحر: أي لأنه وكيل الفقراء عنده، وأما عزل القاضي للناظر فقدمنا الكلام عليه عند قوله وينزع لو غير مأمون إلخ (قوله: به يفتى) والذي في التجنيس والفتوى على قول محمد أي بعدم العزل عند عدم الشرط وجزم به في تصحيح القدوري العلامة قاسم وكذلك المؤلف أي ابن نجيم في رسائله وهو من باب الاختلاف في الاختيار. اهـ. بيري أي فيه اختلاف التصحيح.
قلت: وهو مبني على الاختلاف في اشتراط التسليم إلى المتولي فإنه شرط عن محمد فلا تبقى للواقف ولاية إلا بالشرط، وغير شرط عند أبي يوسف فتبقى ولايته فاختلاف التصحيح هنا مبني على اختلافه هناك. مطلب في عزل الواقف المدرس والإمام وعزل الناظر نفسه."
(کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۷۴،ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101510
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن