بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد اور عورت کی نماز میں فرق


سوال

مرد اور عورت کی نماز میں کیا فرق ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت درکار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مرد و عورت کی نماز میں اصولی فرق ستر اور پردے کا ہے، جیساکہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے، لہٰذا عورت کے حق میں مختلف ارکان کی ادائیگی میں زیادہ ستر (پردے) کا خیال رکھا گیاہے، مرد اور عورت کی نماز کے درمیان فرق درج ذیل ہیں:

1-  پہلا فرق تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کے اٹھانے کی ہیئت میں ہے:

جس کی تفصیل یہ ہے کہ مرد تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینے تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے۔

1)المعجم الكبير للطبراني میں ہے:

عن وائل بن حجر قال: جئت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هذا وائل بن حجر جاءكم، لم يجئكم رغبة ولا رهبة، جاء حبا لله ولرسوله» وبسط له رداءه، وأجلسه إلى جنبه، وضمه إليه، وأصعد به المنبر فخطب الناس فقال لأصحابه: ارفقوا به فإنه حديث عهد بالملك  فقلت: إن أهلي قد غلبوني على الذي لي، قال: أنا أعطيكه وأعطيك ضعفه  فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا وائل بن حجر، إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك، ‌والمرأة ‌تجعل ‌يديها حذاء ثدييها."

(المعجم الکبیر للطبرانی، باب الواو، ‌‌أم يحيى بنت عبد الجبار بن وائل بن حجر، عن عمها علقمة،  ج:22، ص:19،  ط:مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔۔۔۔۔آخر میں ہے کہ  آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔

2)مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

"حدثنا هشيم، قال: أنا شيخ لنا ، قال: سمعت عطاء، سئل عن المرأة: كيف ترفع يديها في الصلاة؟ قال: حذو ‌ثدييها."

(مصنف ابن أبي شیبة، باب‌‌في المرأة إذا افتتحت الصلاة ، إلى أين ترفع يديها، ج:1، ص:216،رقم:2471 ،  ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ: حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟فرمایا : اپنے سینے تک۔

3)مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

"عن عبد ربه بن زيتون، قال: رأيت أم الدرداء، ترفع كفيها حذو منكبيها ‌حين ‌تفتتح ‌الصلاة، فإذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده، رفعت يديها ، قالت:  اللهم ربنا لك الحمد."

(مصنف ابن أبي شیبة، باب‌‌في المرأة إذا افتتحت الصلاة ، إلى أين ترفع يديها، ج:1، ص:216،رقم:2470،  ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ: عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتیں۔

ان تین روایات سے عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا تذکرہ موجود ہے، لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں،  اس فرق کی عقلی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔

چناں چہ فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے:

«(والمرأة ترفع يديها حذاء منكبيها) وهو الصحيح لأنه ‌أستر ‌لها."

(كتاب الصلوة، باب صفة الصلوة، ج:1، ص:283، ط:دار الفكر، لبنان)

ترجمہ: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے؛ کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔

2-  دوسرا فرق قیام میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھا مستحب ہے، اگرچہ فقہاء میں اس حوالے سے اختلاف بھی ہے، تاہم خواتین کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔

چناں چہ فتح باب العناية بشرح النقاية  میں ہے:

(والمرأة تضع ‌على ‌صدرها) اتفاقا لأن مبنى حالها على الستر."

(كتاب الصلوة، سنن الصلاة،  ج:1،  ص:243، ط:دار الأرقم بن أبي الأرقم)

ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیوں کہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے (ستر) پر ہے۔

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"قال: (ثم يعتمد بيمينه على رسغ يساره تحت سرته) لقوله صلى الله عليه وسلم: ثلاث من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضع اليمين على الشمال تحت السرة..والمرأة تضع يدها ‌على ‌صدرها لأنه أستر لها ويقبض بكفه اليمنى رسغ اليسرى."

 (كتاب لصلوة، ‌‌باب الأفعال في الصلاة، ج:1، ص:49، ط:دار الكتب العلمية)

تحفة الملوك میں ہے:

"كيفية وضع اليدين وإذا كبر وضع يمينه على يساره تحت سرته والمرأة تضع ‌على ‌صدرها ثم يقول سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك."

 (كتاب الصلوة، ‌‌فصل الأركان أولها القيام، ص:69، ط:دار البشائر الإسلامية)

 مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وَ الْمَرْاَة تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها بِالْاِتِّفَاقِ"

 (كتاب الصلوة، ‌‌فصل الأركان أولها القيام، ص:153، ط:دار المطبع)

ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔

3-  تیسرا فرق رکوع کی ہیئت میں ہے کہ مرد رکوع میں اپنے بازو اپنے پہلو سے جدا رکھیں گے جب کہ خواتین اپنے بازؤں کو پہلو سے جدا نہیں کریں گی۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء قال ‌تجتمع المرأة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها، وتجتمع ما استطاعت، فإذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت."

 (‌‌359 - باب تكبير المرأة بيديها وقيام المرأة و ركوعها وسجودها، ج:3، ص:408، ط:دار التأصيل)

ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والمرأة تنحني في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعاً وتنحني رکبتيها ولاتجافي عضدتيها."

(كتاب الصلوة، الباب الرابع في صفة الصلاة،  الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها، ج:1، ص:74، ط:دار الفكر)

ترجمہ: عورت رکوع میں کسی قدر جھکے گی،گھٹنوں کو مضبوطی سے نہیں پکڑے گی،اپنی انگلیوں کو کشادہ نہیں کرے گی، البتہ ہاتھوں کو ملا کر اپنے گھٹنوں پر جما کر رکھے گی، گھٹنوں کو قدرے ٹیڑھا کرے گی اور اپنے بازو جسم سے دور نہ رکھے گی۔

4-  چوتھا فرق سجدہ کرنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد سجدے میں بازو کو پہلو سے جدا رکھیں گے جب کہ خواتین مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہیں کریں گی، بلکہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائیں گی، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی۔

المراسيل لأبي داود  میں ہے:

"عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض ‌فإن ‌المرأة ‌ليست ‌في ‌ذلك كالرجل."

(مراسیل أبي داؤد، كتاب الصلوة، ‌‌جامع الصلاة،  ص:118، ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو؛  کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔

السنن الكبرى للبيهقي میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " خير صفوف الرجال الأول، وخير صفوف النساء الصف الآخر " وكان " يأمر الرجال أن ‌يتجافوا في سجودهم، ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن، وكان يأمر الرجال أن يفرشوا اليسرى، وينصبوا اليمنى في التشهد، ويأمر النساء أن يتربعن."

(السنن الکبریٰ للبیهقي،‌‌باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود،  ج: 2، ص:314، ط:الكتب  العلمية)

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن منصور، عن إبراهيم قال: كانت تؤمر المرأة أن تضع ذراعيها وبطنها على فخذيها إذا سجدت، ولا تتجافى كما يتجافى الرجل، لكي لا ترفع عجيزتها."

(مصنف عبدالرزاق،  باب تکبیرة المرأة بیدیها وقیام المرأة ورکوعها وسجودها، ج: 3، ص:408، ط:دار التأصيل)

ترجمہ: حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے؛ تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن ابن جريج، عن عطاء قال تجتمع المرأة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها، وتجتمع ما استطاعت، فإذا سجدت ‌فلتضم ‌يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت."

(مصنف عبدالرزاق،  باب تکبیرة المرأة بیدیها وقیام المرأة ورکوعها وسجودها، ج: 3، ص:408، ط:دار التأصيل)

ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے۔

5-پانچواں فرق سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کی ہیئت میں ہے  کہ عورت اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دے۔

السنن الکبریٰ للبیهقي  میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: .... وكان يأمر الرجال أن يفرشوا اليسرى، وينصبوا اليمنى في التشهد، ويأمر النساء أن يتربعن."

(السنن الکبریٰ للبیهقي،‌‌باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود،  ج: 2، ص:314، ط:الكتب  العلمية)

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔

مصنف ابن أبي شيبةمیں ہے:

"عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: تجتمع وتحتفر."

(مصنف ابن أبي شیبة، المرأة کیف تکون في سجودها، رقم الحدیث2794، ج:1، ص:241، ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔

مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں : مجموعہ رسائل مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ  اور فتاوی دارالعلوم زکریا جلد دوم ، صفحہ 179 سے  188 تک۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں