بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کفو میں برادری کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟


سوال

1- کیا برادریوں کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے مسئلۂ کفوء  میں؟

2- کیا ضروری ہے کسی لڑکی کے  لیے کہ وہ اپنی ہی برداری (ذات) میں نکاح کرے اوراپنے سے عرفًا جو  برداری  کمتر سمجھی جاتی ہے، اس میں نکاح نہ کرے؟

جواب

1۔’’کفو‘‘ کا معنی ہے: ہم سر، ہم پلہ، برابر۔  نکاح کے باب میں "کفو"  کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت، مال و نسب، پیشہ  اور  تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ (یا اس سے بڑھ کر) ہو ، اس سے کم نہ ہو،  اور کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے، یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ  میں  کفو  میں  عجمی برادریوں  کا اعتبار نہیں ہو گا، اگر لڑکا شریف اور دیندار ہو توکفو کے لیے قبیلے کا کمتر ہونا مانع نہیں ہو گا  ۔

2۔واضح رہے کہ  برادری سے باہر نکاح کرنا منع نہیں ہے، بشرط یہ کہ کفو کی دیگر شرائط پائی جائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی بالغ  لڑکی ایسی برادری میں نکاح کرے جو عرفاً لڑکی کے برادری سے کمتر سمجھی جاتی ہو، لیکن لڑکے میں کفو کی شرائط پائی جاتی ہو تو مذکورہ نکاح جائز ہو گا اور اولیاء کو صرف برادری کمتر ہونے کی وجہ سے اعتراض کا حق حاصل نہیں ہو گا۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے کہ:

"  برادری کے محدود دائرے میں شادی بیاہ کرنے پر بعض برادریووں کی طرف سے جو زور دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ ہرجانہ یا بائیکاٹ تک کی سزا دی جاتی ہے، یہ تو شرعاً بالکل غلط ہے اور حرام ہے، لڑکی اور اس کے والدین کی رضامندی سے دوسری اسلامی برادریوں میں بھی نکاح ہو سکتا ہےاور اس میں شرعاً کوئی عیب کی بات نہیں، اور اگر دوسری برادری کا لڑکا نیک ہو اور اپنی برادری میں ایسا رشتہ نہ ہو تو غیر برادری کے ایسے نیک رشتے کو ترجیح دینی چاہیے۔"

(ج: 6، ص: 135، ط: مکتبہ لدھیانوی)

    فتاوی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط". 

(کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، ج: 3، ص: 86،  ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادةً؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلاتغيظه دناءة الفراش".

(کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ، ج: 3، ص: 293،  ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة: أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما".

(کتاب النکاح، الباب الخامس فی الأکفاء فی النکاح، ج: 1، ص: 292،  ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں