بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میاں بیوی میں تعلیم میں برابری ضروری ہے اور مالداری میں برابری کا کیا مطلب ہے؟


سوال

1) کیا کفوء میں تعلیم بھی شامل ہے؟ کیا میٹرک پاس آدمی کسی کالج /یونیورسٹی والی لڑکی کا کفوء ہے؟  کیا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ آدمی کسی عالمہ لڑکی کےلئے کفوء ہے؟  اسی طرح کیا ایک عالم کسی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ لڑکی کا کفوء ہے؟

 2)مالداری میں کفوء ہونے سے کیا مراد ہے؟ سنا ہے کہ ایک جیسی مالی حیثیت ہونا ضروری نہیں، بس جو عام طور پر مہر اس گھرانے کی عورتوں کو ملتا ہے، آدمی اس کو ادا کرنے کے قابل ہو۔ وضاحت فرمادیجئے کہ مالداری میں کفوء ہونے سے کیا مراد ہے؟ 

جواب

1)فقہاء نے کفائت کے باب میں  ان چھ امور کا اعتبار کیا ہے ،نسب،اسلام ،حریت ،دیانت(دین داری)،مال اور پیشہ،نیز کفوء کا مدار شوہر کی جانب ہے یعنی شوہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کا ہم پلہ و برابر ہو ،اس لیے کہ ایک معزز خاندان کی لڑکی کے گھر والے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی  ایک  ادنی لڑکے کے لیے فراش بنے،اسی لیے جب کوئی لڑکی اپنے سے اعلی حسب و نسب  خاندان کے لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو اس صورت میں لڑکی کے اولیاء کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس نکاح پر اعتراض کریں ۔

لہذا  تعلیم ان  چھ امور میں سے نہیں ہے جن کا فقہاء نے کفائت کے باب میں اعتبار کیا ہے ،چھ امور یہ ہیں :نسب،اسلام ،حریت ،دیانت(دین داری)،مال اور پیشہ، اس لیے کفائت میں کسی لڑکی کا اعلی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہونا اور لڑکے کا نہ ہونے کا اعتبار نہیں ہے ،بلکہ انہی مذکورہ چھ امور کا ہی اعتبار  کیا جائے گا،چوں کہ ان امور میں سے ایک دینداری بھی ہے اس لیے فاسق یا غیر دیندار لڑکا دیندار لڑکی کا کفوء نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط

(کتاب النکاح ،باب الولایۃ ،ج:3،ص:86،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع. فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي."

(کتاب النکاح ،باب فی الاکفاء فی النکاح،ج:1،ص:290،ط:رشیدیہ)

2)جی بالکل مال میں کفائت کا معنی  یہ ہے کہ شوہر بیوی کو مہر اور نان و نفقہ دینے کی قدرت رکھتا ہو ،یہ ضروری نہیں ہے کہ جتنے مالدار لڑکی والے ہیں لڑکے والے بھی اتنے ہی مالدار ہو ں یا اس کے قریب قریب ہوں ۔

مہر پر  قادر ہو،اس  کی تفصیل یہ ہے کہ شوہر  اپنی بیوی کو اتنا مہر  پہلی رات کو دینے کی قدرت رکھتا ہو  جتنا پہلی رات کو دینے کا  دستور ہے ،اگر چہ سارا مہر یک مشت دینے کی استظاعت نہ رکھتا ہو۔

اور نفقہ میں تفصیل یہ ہے کہ شوہر  ایک مہینہ کے نفقہ دینے کی قدرت رکھتا ہو ،چاہے اس کے پاس مہینہ بھر کے نفقہ کے پیسہ موجود ہوں یا موجود تو نہ ہوں لیکن اپنے پیشہ اور حرفت کے ذریعہ کما کر دینے کی قدرت رکھتا ہو ۔

بہشتی زیور میں ہے :

"مال میں برابری کے معنی یہ ہیں کہ بالکل مفلس ،محتاج مالدار عورت کے برابر کا نہیں ہے ،اور اگر وہ بالکل مفلس نہیں بلکہ جتنا مہر پہلی رات کو دینے کا دستور ہے اتنا مہر دے سکتا ہے وہ اور نفقہ دینے کا اہل ہے تو اپنے میل اور برابر کا ہے ،اگر چہ سارا مہر نہ دے سکے اور یہ ضروری نہیں کہ جتنے مالدار لڑکی والے ہیں لڑکا بھی اتنا ہی مالدار ہو یا اس کے قریب قریب مالدار ہو ۔"

(کتاب النکاح ،ج:4،ص:165،ط:توصیف پبلیکیشنز)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومالا) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع ،(قوله بأن يقدر على المعجل إلخ) أي على ما تعارفوا تعجيله من المهر، وإن كان كله حالا فتح فلا تشترط القدرة على الكل، ولا أن يساويها في الغنى في ظاهر الرواية وهو الصحيح زيلعي، ولو صبيا فهو غني بغنى أبيه أو أمه أو جده كما يأتي وشمل ما لو كان عليه دين بقدر المهر، فإنه كفء لأن له أن يقضي أي الدينين شاء كما في الولوالجية وما لو كانت فقيرة بنت فقراء كما صرح به في الواقعات معللا بأن المهر والنفقة عليه فيعتبر هذا الوصف في حقه وما لو كان ذا جاه كالسلطان والعالم قال الزيلعي: وقيل يكون كفؤا وإن لم يملك إلا النفقة لأن الخلل ينجبر به ومن ثم قالوا الفقيه العجمي كفء للعربي الجاهل (قوله ونفقة شهر) صححه في التجنيس وصحح في المجتبى الاكتفاء بالقدرة عليها بالكسب فقد اختلف التصحيح واستظهر في البحر الثاني ووفق في النهر بينهما بما ذكره الشارح وقال إنه أشار إليه في الخانية (قوله لو تطيق الجماع) فلو صغيرة لا تطيقه فهو كفء وإن لم يقدر على النفقة لأنه لا نفقة لها فتح ومثله في الذخيرة."

(کتاب النکاح ،باب الولایۃ ،ج:3،ص:90،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها الكفاءة في المال) وهو أن يكون مالكا للمهر والنفقة وهو المعتبر في ظاهر الرواية حتى أن من لا يملكهما أو لا يملك أحدهما لا يكون كفئا كذا في الهداية موسرة كانت المرأة أو معسرة هكذا في التجنيس والمزيد ولا تعتبر الزيادة على ذلك حتى أن من كان قادرا على المهر والنفقة كان كفئا لها، وإن كانت هي صاحبة أموال كثيرة هو الصحيح من المذهب، وإن كان يقدر على نفقتها بالكسب ولا يقدر على المهر اختلف المشايخ فيه عامتهم على أنه لا يكون كفئا، كذا في المحيط. والمراد بالمهر المعجل وهو ما تعارفوا تعجيله ولا يعتبر الباقي ولو كان حالا، كذا في التبيين. قال أبو نصر يعتبر في النفقة قوت سنة وكان نصير - رحمه الله تعالى - يقول: يعتبر قوت شهر وهو الأصح هكذا في التجنيس والمزيد."

(کتاب النکاح ،باب فی الاکفاء فی النکاح،ج:1،ص:291،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں