بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس لڑکی کے ساتھ زنا کیا اس سے شادی کرنا


سوال

میرے ایک دوست کو اپنی کزن سے محبت ہو گئی ،تعلقات اس حد تک بڑھ گئے کہ ان دونوں نے جسمانی تعلق قائم کر لیا ،اب دونوں ہی شادی کرنا چاہتے ہیں،جب کہ لڑکے کی بچپن میں ہی منگنی ہو گئی تھی ،لڑکے کے گھر والوں کو  اس کا علم ہوا تو انہوں نے کہا تمہاری سزا یہ ہے کہ جہاں تمہارا رشتہ ہوا ہے وہیں تمہاری شادی ہوگی،دونوں کے گھر والے جسمانی تعلق کے علم کے باوجود  ان کو الگ کرنا چاہتے ہیں،جب کہ لڑکا لڑکی اپنے فعل پر پشیمان ہیں  اور شادی کر کے نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں،آپ شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

زنا ایک بڑا گناہ ہے اور  اس کا  مرتکب  اگر  توبہ  نہ  کرے تو    آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا،جیسا کہ قرآن و حدیث  میں متعدد  و عیدیں  وارد  ہوئی   ہیں۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّٰهِ  إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ." [الفرقان: 68-69]

ترجمہ :’’ اور  جوکہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور معبود  کی  پرستش نہیں کرتے اور  جس شخص  (کے قتل کرنے) کو اللہ تعالی نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو  سزا سے اس کا سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے دن اس کا  عذاب بڑھتا چلا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ہمیشہ  ہمیشہ ذلیل خوار  ہو کر رہے گا۔‘‘(بیان القران)

مشكاة المصابیح میں ہے:

"فانطلقنا حتى أتينا إلى ثقب مثل ‌التنور ‌أعلاه ‌ضيق وأسفله واسع تتوقد تحته نار فإذا ارتفعت ارتفعوا حتى كاد أن يخرجوا منها وإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت: ما هذا؟ قالا: انطلق ... فأخبراني عما رأيت. قالا: نعم ... و الذي رأيته في الثقب فهم الزناة."

ترجمہ:’’پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم  ایک تندور  نما سوراخ  پر آئے،اس کا اوپری حصہ تنگ تھا اور نچلا حصہ کشادہ، اس کے نیچے  آگ جل رہی تھی، پس جب آگ بھڑکتی  وہ  لوگ بھی اوپر  اٹھتے  یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ  اس سے نکل جائیں اور جب آگ بجھتی  وہ اس میں واپس ہوجاتے اور اس میں مرد اور عورتیں برہنہ تھیں، میں  نے پوچھا یہ کیا  ہے؟ ان دونوں نے کہا: آپ چلیں،   پس ہم چلے ... ( پھر آپ ﷺ نے فرمایا:) تم دونوں  جو  میں نے دیکھا اس  کے بارے میں مجھے بتاؤ۔ان دونوں نے کہا : ہاں ... اور جو آپ نے  سوراخ میں دیکھا تو وہ زانی تھے ۔‘‘

(‌‌كتاب الرؤيا، الفصل الأول،2/ 1299، رقم :4621 ،ط: المكتب الإسلامي بيروت)

سنن الترمذی میں ہے:

"و قد روي عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا زنى العبد ‌خرج ‌منه ‌الإيمان فكان فوق رأسه كالظلة، فإذا خرج من ذلك العمل عاد إليه الإيمان."

ترجمہ: ’’اور حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے  کہ جب بندہ زنا کرتا ہے اس سے ایمان نکل جاتاہے،پس اس کے سر پر سائبان کی طرح ہوتا ہے ،پھر جب اس عمل سے نکلتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ جاتا ہے۔‘‘

مگر   زید اپنے اس فعل پر نادم ہے  اللہ تعالی سےسچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ  کے  لیے  اس عمل سے مکمل اجتناب کرے

مذکورہ آیت کے آگے ہے:

"﴿ إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴾." [الفرقان: 70] 

ترجمہ:’’مگر جو شرک و معاصی سے توبہ کرلے اور ایمان بھی لے آئے اور نیک کام کرتا رہے تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کے گزشتہ گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا اور اللہ تعالی غفور رحیم ہے۔‘‘(بیان القران)

لہذا اللہ  تعالی  سے سچی توبہ کی جائے نیز شریعت نے ہر بالغ مرد و عورت کو  اپنے اختیار سے نکاح کرنے کا حق دیا ہے البتہ شریعت نے رشتوں کے سلسلے میں خاندانی شرافت کو بھی اہمیت دی ہے  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے دوست  پر شرعاً لازم نہیں  کہ جس عورت کے ساتھ  زنا کیا ہے اسی کے ساتھ نکاح بھی کرےحالانکہ اس میں دونوں خاندانوں  کے لیے آئند عار کا سبب بھی ہے ،جب کہ منگنی وعدہِ نکاح ہے ،جس کی پاسداری شرعاً لازم ہے  ،لہذا سائل کے دوست کو چاہیے کہ  والدین کے مشورے سے جہاں منگنی طے ہوئی ہے وہیں شادی کرے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’منگنی یعنی شادی کرنے کا وعدہ اور قول و قرار اس پر دونوں جماعتوں کا قائم رہنا ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"وأوفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا"یعنی اور عہد (قول و قرار) پورے کرتے رہو، بے شک عہد کے متعلق پرسش ہونے والی ہے۔( سورۃ بنی اسرائیل ) لہذا کسی شرعی سبب کے بغیر قول و قرار سے پھر جانا اور دو سال تک امید دلا کر پھر انکار کردینا گناہ کا کام ہے، برادری کے ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ رشتہ کرنے کی پوری کو شش کریں، لیکن مجبور نہ کیا جائے کورٹ کا سہارا لینا اور خرچ  مانگنا غلط ہے .‘‘

(متفرقات نکاح،ج:8،ص:248،ط:دار الاشاعت)

شرح صحيح البخاری لابن بطال میں ہے:

"ورخص أكثر العلماء فى تزويج المرأة التى زنى بها، وشبه ابن عباس ذلك برجل يسرق ثمر النخلة فيأكلها ثم يشتريها، وكره ذلك ابن مسعود، وعائشة، والبراء، وقالوا: لا يزالان زانيين ما اجتمعا." 

(كتاب الرضاع،باب ما يحل من النساء وما يحرم،ج7،ص210،ط:مكتبة الرشد - السعودية)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقد اختلف السلف في تأويل الآية وحكمها، فحدثنا جعفر بن محمد الواسطي قال: حدثنا جعفر بن محمد بن اليمان قال: حدثنا أبو عبيد قال: حدثنا يحيى بن سعيد ويزيد بن هارون عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن سعيد بن المسيب في قوله تعالى: {‌الزاني ‌لا ‌ينكح ‌إلا ‌زانية ‌أو ‌مشركة} : قد نسختها الآية التي بعدها: {وأنكحوا الأيامى منكم}."

(من سورة النور،‌‌باب تزويج الزانية،ج3،ص345،ط:دار الكتب العلمية)

ردالمحتار میں ہے:

"لإطلاق النصوص في ‌قبول ‌توبة العاصي، بل التوبة من الكفر مقبولة قطعًا و هو أعظم وزرًا."

(باب صلاۃ الجنازۃ،ج2212 ، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں