بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارہ کا نام لے کر ان کی اجازت کے بغیر اپنے دوستوں سے رقم لے کر اپنی تنخواہ کی مد میں اسے وصول کرنے کا حکم


سوال

ہماری جامعہ میں تنخواہ وقت پر نہیں دی جاتی اورتنخواہ ہوتی بھی بہت کم ہے، جس سے ہمارے گھر کے بنیادی اخراجات مثلا: کچن اور بچوں  کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔کیا میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اپنے دوستوں کے تعاون سے اپنی تنخواہ پوری کرسکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنی جامعہ کا نام لے کراپنے دوستوں سے اس کے لیے رقم لینا اور انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اسے اپنی تنخواہ میں شامل کرنا شرعاً ناجائز  ہے،البتہ ادارے کا نام لیے بغیراگر سائل کاکوئی دوست سائل کا  تعاون کرے،مدرسہ کا کوئی عنوان نہ ہوتو چوں کہ اس تعاون کا ادارے سے کوئی واسطہ نہ ہوگا تو اس صورت میں سائل اس رقم کو اپنے  ذاتی استعمال میں لاسکتاہے۔تاہم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے چوں کہ عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے، ا س لیے سخت مجبوری نہ ہو تو اس سے بچا جائے۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالة أو ولاية و إن فعل كا ضامنًا."

(ج:1، ص:61، الرقم:96،ط :حبیبیہ کوئٹہ)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر و لا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(احكام الوکالۃ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال،ج:45، ص: 87،   ط: طبع الوزارة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں