بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گرافک ڈیزائننگ (graphic designing) کا حکم


سوال

graphic designing کا کام کرنا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ گرافک ڈیزائننگ (graphic designing)  ایک وسیع میدان ہے جس میں مختلف قسم کے کام شامل ہوسکتے ہیں، چناں چہ ان میں سےجن کے اندر کسی غیر شرعی امر (جاندار کی تصویر اور ویڈیو کی ایڈیٹنگ یا بیک گراونڈ میں گانے چلانا وغیرہ)  کا ارتکاب ہو،تو ان کا کرنا ناجائز ہوگا اور اس سے ملنے والی آمدنی حرام ہوگی، اور اگر اس میں متعلقہ خرابیوں میں سے کوئی خرابی نہ پائی جارہی ہو، تو اس کا کرنا جائز ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌عبد الله بن عبد الوهاب: حدثنا ‌يزيد بن زريع : أخبرنا ‌عوف ، عن ‌سعيد بن أبي الحسن «قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما: إذ أتاه رجل فقال: يا أبا عباس، إني إنسان، ‌إنما ‌معيشتي ‌من ‌صنعة ‌يدي، وإني أصنع هذه التصاوير. فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سمعته يقول: من صور صورة فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا. فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه، فقال: ويحك، إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شيء ليس فيه روح»".

ترجمہ:" سعید بن ابو الحسن روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا معاشی گزران ہاتھ کی محنت سے ہوتاہے اور میں یہ (جان دارکی) تصاویر بناتاہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں وہی بات سناؤں گا جو  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، (یعنی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہوں گا)  آپ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا: جو شخص (جان دار کی) تصویر بنائے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عذاب دیں گے، یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں جان / روح نہ ڈال دے، اور وہ اس (تصویر) میں کبھی جان نہیں ڈال پائے گا۔ یہ حدیث سن کر اس شخص نے ایک بڑا اور اونچا سانس لیا اور اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تیرا ناس ہو! اگر تصویر بنانی ہی ہے (یعنی اگر تمہارا گزران نہیں ہوتا) تو ان درختوں کی تصاویر بناؤ اور ہر اس چیز کی جس میں روح نہ ہو۔" (بخاری)

(‌‌باب بيع التصاوير التي ليس فيها روح وما يكره من ذلك، 3/ 82، رقم الحدیث: 2225، ط: دار طوق النجاة)

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"(و لايجوز الاستئجار على سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية و المعصية لاتستحق بالعقد) فإنه لو استحقت به لكان وجوب ما يستحق المرء به عقابًا مضافًا إلى الشرع و هو باطل".

(كتاب الإجارات، باب الإجارة الفاسدة، 9/ 98، ط: دار الفكر لبنان)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و في المنتقى إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالا، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: على شرط إن شرطوا لها في أوله مالا بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء و هذا لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية و السبيل في المعاصي ردها و ذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصية و الدفع حصل من المالك برضاه فيكون له و يكون حلالا له".

(الباب الخامس عشر في الكسب،5/ 349، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں