بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ کی نمازکاحکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ضلع کرک یونین بہادرخیل گاؤں چارپرہ کی  مجموعی آبادی  تقریبا2200ہیں،اس گاؤں میں تین کریانہ کی دکانیں ہیں جن میں سبزی ،دال ،چاول ،گھی ،آٹا اور بیکری کاسامان مل جاتا ہے،اس کے علاوہ اور کسی قسم کی کوئی دکان نہیں  ،نہ کوئی بازارہے،نہ پولیس تھانہ،نہ کوئی کچہری،نہ کلینک،نہ کوئی ہسپتال اور نہ  ہی کوئی ڈاکخانہ وغیرہ   ہے۔

اب مذکورہ گاؤں کے بارے میں چندباتیں دریافت کرنا مقصود ہے:

1۔مذکورہ گاؤں میں نمازجمعہ جائز ہے یا نہیں؟

2۔اگرجائزہےتوجن لوگوں نے اب تک جمعہ کی بجائےظہر کی نماز پڑھی ہے ان کا کیاحکم ہے؟اوراگرجائزنہیں ہے تو جن لوگوں نے اب تک جمعہ اداکیاہے ان کاکیاحکم ہے؟اورآئندہ کے لیے کیاکریں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے اس جگہ کا مصر(شہر)ہونا یا فناءِ مصر ہونا یا قریہ کبیرہ(بڑا گاؤں)ہونا شرط ہے،قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی،تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہو ،اور وہاں ضرورت کی اشیاء آسانی سے مل جاتی ہوں۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق مذکورہ گاؤں (گاؤں چارپره)کی آبادی اگرچہ 2200کےقریب ہےلیکن چونکہ اس گاؤں میں کلینک ،بازارہسپتال،تھانہ وغیرہ نہیں ہے،ضرورت کی اشیاء باآسانی دستیاب نہیں ہیں،لہٰذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے،اگرفتنہ  کا خوف نہ ہوتوحکمت وبصیرت کے ساتھ مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز بند کروادی جائے اور اگر جمعہ بند کروانے کی صورت میں فتنہ اور شرکا خوف ہو تو پھر جمعہ جاری رکھا جائے،البتہ جو لوگ  مذکورہ گاؤں میں جمعہ کو ناجائز سمجھتے ہوئے جمعہ نہیں پڑھتے اور اس کے بجائے ظہر کی نماز پڑھتے ہیں تو ان پر بھی اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔

2۔جو لوگ مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نمازجائز سمجھتے ہوئے پڑھتے رہے تو ان کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہوگیاہے،ان پر ظہر کی قضاء نہیں ہے۔

الدرمع الرد میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثرالفقهاء مجتبى؛لظهور التواني في الأحكام،وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاضيقدر على إقامة الحدود۔۔۔۔۔(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ولو متغلبا أو امرأة فيجوز أمرها بإقامتها لا إقامتها (أو مأمورة بإقامتها) ولو عبدا ولي عمل ناحية وإن لم تجز أنكحته وأقضيته،(و) الثالث (وقت الظهر فتبطل) الجمعة (بخروجه) مطلقا ولو لاحقا بعذر نوم أو زحمة على المذهب لأن الوقت شرط الأداء لا شرط الافتتاح. (و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح. (و) الخامس: (كونها قبلها) لأن شرط الشيء سابق عليه (بحضرة جماعة تنعقد) الجمعة (بهم ولو) كانوا (صما أو نياما فلو خطب وحده لم يجز على الأصح) كما في البحر عن الظهيرية،(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام)۔۔۔۔ (و) السابع: (الإذن العام) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي۔۔۔الخ.     "

(کتاب الصلوٰۃ،باب الجمعۃ،2/137۔152،ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها۔۔۔۔أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.

وأما تفسير توابع المصر فقد اختلفوا فيها روي عن أبي يوسف أن المعتبر فيه سماع النداء إن كان موضعا يسمع فيه النداء من المصر فهو من توابع المصر وإلا فلا، وقال الشافعي إذا كان في القرية أقل من أربعين فعليهم دخول المصر إذا سمعوا النداء وروى ابن سماعة عن أبي يوسف كل قرية متصلة بربض المصر فهي من توابعه وإن لم تكن متصلة بالربض فليست من توابع المصر، وقال بعضهم: ما كان خارجا عن عمران المصر فليس من توابعه، وقال بعضهم: المعتبر فيه قدر ميل وهو ثلاثة فراسخ، وقال بعضهم: إن كان قدر ميل أو ميلين فهو من توابع المصر وإلا فلا، وبعضهم قدره بستة أميال، ومالك قدره بثلاثة أميال، وعن أبي يوسف أنها تجب في ثلاثة فراسخ، وعن الحسن البصري أنها تجب في أربعة فراسخ، وقال بعضهم: إن أمكنه أن يحضر الجمعة ويبيت بأهله من غير تكلف تجب عليه الجمعة وإلا فلا وهذا حسن."

(کتاب الصلوٰۃ،فصل صلوٰۃ الجمعۃ،فصل بيان شرائط الجمعۃ،1/259۔260۔دارالکتب العلمیۃ)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة."

(کتاب الصلوٰۃ،الباب السادس عشر في صلاة الجمعۃ،1/145،دارالفکر)

الدرمع الرد میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(کتاب الصلوۃ،باب الجمعۃ،2/138،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة.وفي الرد:(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ."

(باب العیدین،2/167،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"جواب:گاؤں میں جمعہ کاصحیح ہونا نہ ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے،حنفیہ کے نزدیک جواز جمعہ کے لیے مصر ہونا شرط ہے،لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے،تاہم جس مقام میں کہ زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہے وہاں جمعہ کو ترک کرانے میں جو مفاسد ہیں وہ ان مفاسد سے بدرجہازیادہ سخت ہیں جو سائل نے جمعہ پڑھنے کی صورت میں ذکر کیے ہیں ،جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کافرض ادا ہوجاتاہے ،نفل کی جماعت یاجہر بقراءت نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا"۔

(کتاب الصلوٰۃ،پانچواں باب نمازجمعہ،فصل دوم شرائط جمعہ،3/230،231،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں