بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فیوچر ٹریڈنگ سے پیسہ کمانے کا حکم


سوال

فیوچر ٹریڈنگ سے پیسہ کمانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

شیئر مارکیٹ وغیرہ میں تجارت کا ایک طریقہ جسے" فیوچر ٹریڈ" (بیاعات مستقبلیات)  کہتے ہیں مروّج ہے، اس کا مقصد شیئر وغیرہ کا خریدنااور فروخت کرنا نہیں ہوتا بلکہ بڑھتے گھٹتے دام کے ساتھ نفع نقصان کو برابر کرلینا بھی مقصود ہوتا ہے، تجارت کا یہ طریقہ   درجِ ذیل امور کی وجہ سے جائز نہیں ہے:

1: قبضہ کرنے سے پہلے خرید وفروخت  کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں ایسی چیز کو آگے فروخت کیاجاتاہے جو مالک کے قبضے میں موجود نہیں ہوتی، فیوچر ٹریڈنگ میں یہ خرابی صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اور تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہے ، کیونکہ سب سے پہلا فروخت کنندہ نہ سامان کا مالک ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے قبضے  میں ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ اسے مستقبل کی کسی تاریخ کے لیے کسی تاریخ کے لیے کسی کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے اور وہ کسی اور کو۔ چنانچہ مقررہ تاریخ آنے تک بے شمار لوگ درمیان میں بائع اور مشتری  بن چکے ہیں لیکن سامان ا ن میں سے کسی نے دیکھا تک نہیں ہوتا،  چہ جائیکہ اس پر کسی نے قبضہ کیا ہو، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ جو چیز قبضے میں موجود نہ ہو اسے آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ (1)

2: ً: سامان اور قیمت دونوں کا ادھار معاملہ کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں سامان اور اس کی قیمت دونوں ادھار میں ہوتے ہیں کیونکہ سامان خریدار کو فوراً نہیں ملتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد ملتا ہے،  اسی طرح خریدار اس چیز کی قیمت ابھی نہیں دیتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد دیتا ہے، گویاکہ اس معاملہ میں دونوں طرف سے ادھار ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایسی خرید وفروخت سے منع فرمایا ہے۔(2)

3: یہ معاملہ قمار پر بھی مشتمل ہے:

اس طرح کے معاملے میں قمار بھی ہے، کیوں کہ حقیقت میں خریدوفروخت مفقود ہے، محض ایک کاغذی کاروائی کی بنیاد پر نفع ونقصان ہوتا ہے، اور قمار والا معاملہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔(3)

حوالہ جات مندرجہ ذیل ہے:

(1): فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.

(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض".

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ج:6، ص:510، ط:دارالفکر)

(2): بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون مقبوضا في مجلس السلم لأن المسلم فيه دين، والافتراق لا عن قبض رأس المال يكون افتراقا عن دين بدين وإنه منهي عنه لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع الكالئ بالكالئ» أي النسيئة بالنسيئة".

(کتاب البیوع، بیان رکن البیع، فصل في شرائط الركن، ج:5، ص:202، ط:دارالکتب العلمیۃ)

(3): فتاویٰ شامی(ردّ المحتار)  میں ہے:

"سمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، ج:6، ص:403، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں