بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد الاحد نام بغیرعبد کے پکارنا


سوال

میرے بھانجے کا نام عبد الاحد ہے، سب لوگ اس کو احد پُکارتے ہیں،تو کیا اسے احد پکارناجائز ہے؟یا اس کا نام تبدیل کردینا چاہیے؟راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

"احد"اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے، اللہ تعالی کے علاوہ  عربي زبان ميں  دوسروں کے لیے اس کا استعمال  مجازًا ہوتا ہے، اس لیے اگر کسی کا نام "عبد الاحد" ہے تو اس کو عبد الاحد پورا  نام كہہ  كر پكارے۔

صرف  احد  پكارنا  درست نہیں، جان بوجھ کر ایسا کہنے والا  گناہ گار ہوگا۔ سننے والا اگر اسے منع کرسکتاہے، یا سمجھا سکتاہے اور پھر بھی خاموش رہے تو وہ قصور وار ہوگا، اگر اس موقع پر منع کرنا یا سمجھانا مناسب نہ ہو یا اختیار میں نہ ہو اس لیے خاموش رہے لیکن دل میں اسے غلط سمجھے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔

 بہتر یہ ہے کہ    اس  نام کو تبدیل کردیا جائے۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔" مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا"۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

لسان العرب میں ہے:

"أحد: في أسماء الله تعالى: الأحد وهو الفرد الذي لم يزل وحده ولم يكن معه آخر، وهو اسم بني لنفي ما يذكر معه من العدد، تقول: ما جاءني أحد، والهمزة بدل من الواو وأصله وحد لأنه من الوحدة. ‌والأحد: ‌بمعنى ‌الواحد وهو أول العدد، تقول أحد واثنان وأحد عشر وإحدى عشرة. وأما قوله تعالى: قل هو الله أحد؛ فهو بدل من الله لأن النكرة قد تبدل من المعرفة."

(ج:3،ص:70،ط: دار صادر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. 

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل."

فتاوی عثمانی میں ہے:

"وہ اسمائے حسنی جو باری تعالی کے اسم ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفات مخصوصہ کے معنی ہی میں استعمال ہوتے ہوں ، ان کا استعمال غیر اللہ کے لیے کسی حال جائز نہیں ، مثلا:اللہ ، الرحمن ، القدوس ، الجبار ، المتکبر ، الخالق ، البارئ ، المصور الرزاق ، الغفار ، القهار ، التواب ، الوهاب ، الخلاق ، الفتاح ، القیوم ، الرب ، المحیط ، الملیک ، الغفور ، الأحد ، الصمد ، الحق ، القادر ، المحیي."

(کتا ب الایمان و العقائد ج:1،ص:52،ط:معارف القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں