میرا سوال نماز میں امام اور ایک مقتدی کے بارے میں یہ ہے کہ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ امام کےساتھ دوسرا مقتدی نماز باجماعت میں شامل ہوسکے گا ، تو مقتدی اول پیچھے کھڑا ہوجائے۔ اس کا جواز ہے یا نہیں؟
جب امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی ہو تو اس کو امام کے ساتھ ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا چاہیے،اس صورت میں پچھلی صف میں مقتدی کا کھڑا ہونا مکروہ ہے، اگر کسی دوسرے مقتدی کے آنے کا احتمال ہو تو بھی پچھلی صف میں کھڑا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ امام کے دائیں طرف ہی تھوڑا پیچھے ہو کر کھڑا ہونا چاہیے، بعد میں اگر دوسرا مقتدی آکر ساتھ شامل ہونا چاہے تو ایسی صورت میں پہلے سے موجود مقتدی کو چاہیے کہ وہ پیچھے ہوجائے، یا تیسرا شخص اسے کھینچ کر اپنے ساتھ پیچھے صف میں کھڑا کرلے، یہی اولی ہے، اگرچہ جگہ میں وسعت ہونے کی صورت میں امام کو آگے بڑھ جانے کی بھی اجازت ہے، اور اگر مقتدی اَحکام سے ناواقفیت کی وجہ سے خود بھی پیچھے نہ ہو، اور امام کے اشارے سے بھی پیچھے نہ ہو یا امام کے اشارہ کرنے کی صورت اندیشہ ہو کہ مقتدی نماز توڑ دے گا تو امام کو ہی آگے ہوجانا چاہیے، نیز اگر مقتدیوں کے لیے پیچھے ہونے کی جگہ نہ ہو، لیکن امام کے لیے آگے بڑھنے کی جگہ ہو تو امام کو آگے بڑھ جانا چاہیے۔
نیز اگر جگہ میں وسعت نہ ہو تو دونوں مقتدی امام کے دائیں اور بائیں جانب جس قدر پیچھے ہوسکیں، پیچھے ہوکر کھڑے ہوجائیں۔
اگر دوسرے مقتدی کا آنا یقینی ہو تو بہتر ہے کہ اس کا انتظار کرلیا جائے اور اس کے آنے کے بعد جماعت کھڑی کی جائے، اور دونوں مقتدی امام کے پیچھے ہی صف بنائیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"إذَا اقْتَدَى بِإِمَامٍ فَجَاءَ آخَرُ يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ مَوْضِعَ سُجُودِهِ، كَذَا فِي مُخْتَارَاتِ النَّوَازِلِ. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ عَنْ الْجَلَّابِيِّ: أَنَّ الْمُقْتَدِيَ يَتَأَخَّرُ عَنْ الْيَمِينِ إلَى خَلْفٍ إذَا جَاءَ آخَرُ. اهـ. وَفِي الْفَتْحِ: وَلَوْ اقْتَدَى وَاحِدٌ بِآخَرَ فَجَاءَ ثَالِثٌ يَجْذِبُ الْمُقْتَدِيَ بَعْدَ التَّكْبِيرِ وَلَوْ جَذَبَهُ قَبْلَ التَّكْبِيرِ لَايَضُرُّهُ، وَقِيلَ: يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ اهـ وَمُقْتَضَاهُ أَنَّ الثَّالِثَ يَقْتَدِي مُتَأَخِّرًا وَمُقْتَضَى الْقَوْلِ بِتَقَدُّمِ الْإِمَامِ أَنَّهُ يَقُومُ بِجَنْبِ الْمُقْتَدِي الْأَوَّلِ. وَاَلَّذِي يَظْهَرُ أَنَّهُ يَنْبَغِي لِلْمُقْتَدِي التَّأَخُّرُ إذَا جَاءَ ثَالِثٌ فَإِنْ تَأَخَّرَ وَإِلَّا جَذَبَهُ الثَّالِثُ إنْ لَمْ يَخْشَ إفْسَادَ صَلَاتِهِ، فَإِنْ اقْتَدَى عَنْ يَسَارِ الْإِمَامِ يُشِيرُ إلَيْهِمَا بِالتَّأَخُّرِ، وَهُوَ أَوْلَى مِنْ تَقَدُّمِهِ لِأَنَّهُ مَتْبُوعٌ وَلِأَنَّ الِاصْطِفَافَ خَلْفَ الْإِمَامِ مِنْ فِعْلِ الْمُقْتَدِينَ لَا الْإِمَامِ، فَالْأَوْلَى ثَبَاتُهُ فِي مَكَانِهِ وَتَأَخُّرُ الْمُقْتَدِي، وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الْفَتْحِ عَنْ صَحِيحِ مُسْلِمٍ «قَالَ جَابِرٌ: سِرْت مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ فَقَامَ يُصَلِّي فَجِئْت حَتَّى قُمْت عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَجَاءَ ابْنُ صَخْرٍ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدَيْهِ جَمِيعًا فَدَفَعْنَا حَتَّى أَقَامَنَا خَلْفَهُ» اهـ وَهَذَا كُلُّهُ عِنْدَ الْإِمْكَانِ وَإِلَّا تَعَيَّنَ الْمُمْكِنُ. وَالظَّاهِرُ أَيْضًا أَنَّ هَذَا إذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْقَعْدَةِ الْأَخِيرَةِ وَإِلَّا اقْتَدَى الثَّالِثُ عَنْ يَسَارِ الْإِمَامِ وَلَا تَقَدَّمَ وَلَا تَأَخَّرَ".
( كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١ / ٥٦٨، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رَجُلَانِ صَلَّيَا فِي الصَّحْرَاءِ وَائْتَمَّ أَحَدُهُمَا بِالْآخَرِ وَقَامَ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ فَجَاءَ ثَالِثٌ وَجَذَبَ الْمُؤْتَمَّ إلَى نَفْسِهِ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ لِلِافْتِتَاحِ حُكِيَ عَنْ الشَّيْخِ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرٍ طَرْخَالَ أَنَّهُ لَاتَفْسُدُ صَلَاةُ الْمُؤْتَمِّ جَذَبَهُ الثَّالِثُ إلَى نَفْسِهِ قَبْلَ التَّكْبِيرِ أَوْ بَعْدَهُ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَفِي الْفَتَاوَى الْعَتَّابِيَّةِ هُوَ الصَّحِيحُ. كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.
رَجُلَانِ أَمَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فِي فَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ فَجَاءَ ثَالِثٌ وَدَخَلَ فِي صَلَاتِهِمَا فَتَقَدَّمَ حَتَّى جَاوَزَ مَوْضِعُ سُجُودِهِ مِقْدَارَ مَا يَكُونُ بَيْنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ وَبَيْنَ الْإِمَامِ لَاتَفْسُدُ صَلَاتُهُ وَإِنْ جَاوَزَ مَوْضِعَ سُجُودِهِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ".
( كتاب الصلاة، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي الْإِمَامَةِ، الْفَصْلُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَقَامِ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ، ١ / ٨٨ ط: دار الفكر)
«درر الحكام شرح غرر الأحكام» (1/ 87):
«وَإِنْ صَلَّى فِي يَسَارِهِ أَوْ فِي خَلْفِهِ جَازَ وَأَسَاءَ فِيهِمَا فِي الْأَصَحِّ لِمُخَالَفَتِهِ السُّنَّةَ»
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144212202087
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن