بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داماد اور بیٹی کو ساس، سسر کی خدمت سے روکنے کا حکم


سوال

1۔کیا بیوی ،شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین کے گھر یا کہیں اورجاسکتی ہے، اگرچہ اسے کوئی موت یا صحت کا مسئلہ درپیش نہ ہو ؟

2۔ میرا سسر مجھے اور میری بیوی کو میرے بوڑھے والدین کی خدمت سےمنع کرتا ہے کیا اس کو یہ حق ہے ؟

3۔میری بیوی کو  میری اجازت کے بغیر میرے سسرال والوں نے بٹھایا ہوا ہے، میرا حق زوجیت پورا نہیں کیا جارہا،  میں اپنی حقِ زوجیت کے لئے اسلامی یا ملکی قانون کے مطابق کوئی کاروائی کرسکتا ہوں ؟ میں فیملی کورٹ میں حقوق زوجیت کا کیس دائر کرکے اپنا شرعی حق چاہتا ہوں، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

4۔ میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا اور وہ  لوگ خلع لینا  نہیں چاہتے،   توکیا میری بیوی کا مجھ پر اخراجات یا دیگر نان نفقہ وغیرہ کا کوئی حق ہوگا ؟جب کہ وہ میری اجازت کے بغیر اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہوئی ہے۔

جواب

1۔عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین کےگھر جانا یا سخت ضرورت کے بغیر کہیں اور جانا جائز نہیں ہے، شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنے والی عورت پر اپنے شوہر کے گھر واپس آنے تک فرشتوں کی لعنت برستی رہتی ہے، البتہ شوہر کی بھی  ذمہ داری  ہے کہ اگر  بیوی کے والدین  قریب  رہتے ہوں تو  ہفتے میں ایک مرتبہ اور اگر دور رہتے ہوں تو مناسب وقت کے بعد اپنی  بیوی کو اُس کے والدین کی زیارت (ملاقات)  کی اجازت دے، خواہ خود اُس  کو اُس کے  والدین کے گھر لے  جاکر زیارت کرائے یا اُس کو اُن کی زیارت کے لیے جانے کی اجازت دے یا اُس کے والدین کو اپنے گھرآنے کی اجازت دے کر زیارت کا موقع دے، اور ہفتہ میں ایک مرتبہ اپنے والدین سے ملاقات اور زیارت عورت کا حق ہے، جس سے شوہر منع نہیں کرسکتا، اور اگر سائل نے ہفتہ میں ایک مرتبہ اپنے والدین سے ملاقات سے منع کیا تو بیوی اپنے والدین سے  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  ملاقات کرسکتی ہے، البتہ والدین کے گھر جانے اور وہاں رہنے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔

نیز  سال میں کم از کم ایک مرتبہ اُسے اُس کے محارم کی زیارت کی اجازت دے۔

2۔سائل کے سسرال والوں کا سائل کو اپنے والدین کی خدمت سےروکنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے لیے ایسا کرنا جائز ہے اور سائل پر لازم ہے کہ اُن کی باتوں کی پرواہ نہ کرے اور اپنے والدین کی ہر قسم کی خدمت کرے، خصوصاً جب وہ دونوں عمر کے آخری حصہ میں ہیں، بصورتِ دیگر سائل سخت گناہ گار ہوگا۔

اورسائل کی بیوی پر سائل کے والدین کی خدمت اگرچہ شرعاً وقضاءً لازم نہیں ہے، لیکن اُس کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہےکہ سائل کے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر اُن کی خدمت کرے، البتہ سائل اُس کو اپنے والدین کی خدمت پر مجبور نہیں کرسکتا۔

3۔سائل کے سسرال والوں کا سائل کی بیوی کوکسی شرعی عذر کے بغیر  میکے میں بٹھانا جائز نہیں ہے، اُن پر لازم ہے کہ سائل کی بیوی کو سائل کے گھر بھیج دیں، اور سائل اپنی بیوی کو اپنے گھر لانے کے لیے کسی بھی قسم کی جائز قانونی کاروائی بھی کرسکتا ہے۔

4۔بصورتِ مسئولہ چوں کہ سائل کی بیوی اُس کی اجازت کے بغیر بلا وجہ شرعی اپنے میکے میں رہ رہی ہے؛ لہٰذا جب تک وہ سائل کے گھر واپس نہیں آتی تب تک سائل کے ذمہ اُس کا  نان ونفقہ لازم نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله أخبرني ما حق الزوج على الزوجة فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيما قال فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعا إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع.قالت لا جرم ولا أتزوج أبدا.رواه الطبراني."

(كتاب النكاح وما يتعلق به، 3/37،38، ط:دار الكتب العلمية)

الدر مع الرد میں ہے:

"(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة؛ و) لها (زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك.

وفي الرد: (قوله أو لزيارة أبويها) سيأتي في باب النفقات عن الاختيار تقييده بما إذا لم يقدرا على إتيانها، وفي الفتح أنه الحق. قال: وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إن كانت شابة والرجل من ذوي الهيآت.

(قوله أو لكونها قابلة أو غاسلة) أي تغسل الموتى كما في الخانية: وسيذكر الشارح في النفقات عن البحر أنه له منعها لتقدم حقه على فرض الكفاية، وكذا بحثه الحموي. وقال ط: أنه لا يعارض المنقول. وقال الرحمتي: ولعله محمول على ما إذا تعين عليها ذلك. اهـ.

قلت: لكن المتبادر من كلامهم الإطلاق، ولا مانع من أن يكون تزوجه بها مع علمه بحالها رضا بإسقاط حقه تأمل. ثم رأيت في نفقات البحر ذكر عن النوازل أنها تخرج بإذنه وبدونه ثم نقل عن الخانية تقييده بإذن الزوج.

( قوله فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج إلخ.

(قوله والمعتمد إلخ) عبارته فيما سيجيء في النفقة: وله منعها من الحمام إلا النفساء وإن جاز بلا تزين وكشف عورة أحد. قال الباقاني: وعليه فلا خلاف في منعهن للعلم بكشف بعضهن، وكذا في الشرنبلالية معزيا للكمال اهـ وليس عدم التزيين خاصا بالحمام لما قاله الكمال. وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم."

(كتاب النكاح، باب المهر،3/145،146، ط : سعید)

الجوهرة النيرة على مختصر القدوريمیں ہے:

"(قوله وللزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها الدخول عليها) ؛ لأن عليها الخلوة معه في أي وقت شاء وبدخول هؤلاء يتعذر ذلك وقيل لا يمنع والديها من الدخول عليها في الأسبوع مرة وفي غيرها من المحارم التقدير بسنة وهو الصحيح."

(كتاب النفقات، 2/ 86، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و(خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره."

(کتاب الطلاق، باب النفقة،3/575،576، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(امتنعت المرأة) من الطحن والخبز (إن كانت ممن لا تخدم) أو كان بها علة (فعليه أن يأتيها بطعام مهيإ وإلا) بأن كانت ممن تخدم نفسها وتقدر على ذلك (لا) يجب عليه ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك لوجوبه عليها ديانة ولو شريفة؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - قسم الأعمال بين علي وفاطمة، فجعل أعمال الخارج على علي - رضي الله عنه - والداخل على فاطمة - رضي الله عنها - مع أنها سيدة نساء العالمين بحر.

وفي الرد: (قوله لا يجب عليه) وفي بعض المواضع: تجبر على ذلك. قال السرخسي: لا تجبر، ولكن إذا لم تطبخ لا يعطيها الإدام وهو الصحيح، كذا في الفتح.

وما نقله عن بعض المواضع عزاه في البدائع إلى أبي الليث، ومقتضى ما صححه السرخسي أنه لا يلزمه سوى الخبز تأمل، لكن رأيت صاحب النهر قال بعد قوله لا يعطيها الإدام، أي إدام هو طعام لا مطلقا كما لا يخفى (قوله على ذلك) أي على الطحن والخبز (قوله لوجوبه عليها ديانة) فتفتى به، ولكنها لا تجبر عليه ‌إن ‌أبت بدائع."

(باب النفقة، 3/579، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"قالوا: ‌إن ‌هذه ‌الأعمال واجبة عليها ديانة، وإن كان لا يجبرها القاضي كذا في البحر الرائق."

(الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، 1/544، ط: دارالفکر)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی"۔

 (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں