بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کی کمائی میں والدین کا تصرف کرنے کا حکم


سوال

بالغ لڑکی جو کہ اپنے خرچہ پورا کرنے کے لیے  گھر پر کچھ کام کرتی ہے ، تو کیا  اس کی محنت مزدوری  کا پیسہ والدین گھر  کے اخراجات یا اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ جب کہ والدین خرچہ بھی نہیں دیتے بیٹیوں کو ، والد کبھی کام کرتا ہے تو کبھی گھر پر بیٹھ کر بیٹیوں کی محنت کے  پیسوں سے گھر چلاتا ہے ، تو کبھی مزارات پر تفریح کیلئے جاتا ہے ، گھر پر بیٹا بھی کمانے والا ہو،  والد ماشاءاللہ سے درزی کا کام ماہر استاد تجربہ کار بھی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی ہوجانے تک  ان کا نان نفقہ   برداشت کرے، باوجود صلاحیت اور ہنر مند ہونے کے کام نہ کرنا اور بیٹیوں کی کمائی پر سے  اخراجات پورا کرنا شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے، بلکہ والد کو اپنی  ذمہ داری  ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ بیٹیوں کو کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہر  نہ جانا  پڑے، باقی اگر ضرورت کی بنیاد پر لڑکی کوئی جائز کام کرتی ہے اور کماتی ہےتو یہ کمائی  اس کی ذاتی ملکیت ہے ،  لہذا اس کے اجازت کے بغیر والدین  کے لیے اس کو گھریلو  اخراجات میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

شرح المجلۃ لرستم باز میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الباب الثالث في المسائل اللمتعلقة بالحيطان و الجيران، المادة:1192، ج:1، ص:517، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے

"لأن الملك من شانه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(کتاب البیوع ، ج:4، ص:504، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

‌"لا ‌يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعيد)

التيسير بشرح الجامع الصغير میں ہے:

"كل ‌أحد ‌أحق ‌بماله من والده وولده والناس أجمعين) لا يناقضه أنت ومالك لأبيك لأن معناه إذا احتاج لماله أخذه لا أنه يباح له ماله مطلقا."

(حرف الكاف، ج:2، ص:210، ط:مكتبة الإمام الشافعي - الرياض)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق ، باب النفقة ، الفصل الرابع في ‌نفقة ‌الأولاد،ج:1، ص:562، ط: دارالفكر بيروت)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه."

(‌‌كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام،ج:5، ص:223،  ط:دار المعرفة - بيروت، لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم."

 (‌‌كتاب النكاح، باب المهر، ج: 3، صفحہ: 146، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں