بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ماہ سے زائد عرصہ قنوت نازلہ پڑھنا


سوال

ہماری مسجد میں تقریباًایک ماہ سے زائد عرصے سے فجر کی نماز میں قنوت ِنازلہ پڑھی جارہی ہے ،جب کہ حدیث شریف میں آپ ﷺ سے ایک ماہ تک قنوت ِنازلہ پڑھنا ثابت ہے ،اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک ماہ سے زائد عرصے تک قنوتِ نازلہ جاری رکھنا جائز ہے یا  فی الحال موقوف کر دیناچاہیے؟

جواب

جب اُمتِ مسلمہ ملی ،قومی یااجتماعی طورپر کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا دشمن کے جانب سے حملے کاخوف ہو یاکوئی وبائی مرض پھیل  چکاہوتو قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ہے۔قنوتِ نازلہ کے لیےشریعت میں کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت کی کوئی تعیین نہیں ہے،بلکہ جب تک حالات سازگار نہ ہوں پڑھ سکتے ہیں،اورحدیثِ انس ؓ میں جو حضورﷺ سے ایک خاص موقع پر ایک ماہ قنوتِ نازلہ پڑھناثابت ہے یہ واقعہ ایک ماہ کی تحدید کے لیے نہیں تھا،بلکہ جس مقصدکے لیے اللہ کے نبی ﷺ نےقنوت ِنازلہ پڑھی تھی وہ  مقصد پورا ہو چکا تھا۔

لہذا   صور  ت ِمسؤلہ میں قنوت ِنازلہ جس غرض سے پڑھی جارہی ہواگر وہ پوری ہوگئی ہوں  یا اس کے اثرات ظاہر ہو رہے  ہوں تو اس سلسلے کوروک دیا جائے،تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں ،  اوراگر  وہ غرض  پوری نہیں ہوئی تو بھی ایک ماہ کے بعد موقوف کرکے کچھ عرصے بعد دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے تاکہ حدیث شریف کی موافقت ہوجائےاور لوگوں کی   ملال و اکتاہٹ بھی دور ہوجائے  ۔

سنن أبي داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌في ‌صلاة ‌العتمة ‌شهرا، ‌يقول ‌في ‌قنوته: اللهم نج الوليد بن الوليد، اللهم نج سلمة بن هشام، اللهم نج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف، قال أبو هريرة: وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فلم يدع لهم، فذكرت ذلك له، فقال: وما تراهم قد قدموا."

(سنن أبي داؤد، باب القنوت في الصلاة، ج:1، ص:204، ط:سعيد)

بذل المجھود فی حل سننِ ابی داؤد میں ہے:

"(قال أبو هريرة: وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم) أي صلَّى صلاة الصبح يومًا، ولفظ ذات زائدة (فلم يدع لهم، فذكرت ذلك) أي سألت سبب ترك دعائه (له) أي لرسول الله صلى الله عليه وسلم (فقال) رسول الله صلى الله عليه وسلم (وما تراهم قد قدموا؟ ) أي كان ذلك الدعاء لهم لأجل تخلصهم من أيدي الكفرة، وقد نجوا منهم، وجاؤوا إلى المدينة، فما بقي حاجة إلى الدعاء لهم بذلك."

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود، باب القنوت في الصلوات، ج:6، ص:148، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلاميةالهند)

علامہ زیلعی  ؒنے شرح کبیر میں لکھا ہے:

"وروي في الخبر  أنه عليه الصلاة والسلام قنت شهرا أو أربعين يوما."

 (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج:1. ص:171.) 

إعلاء السنن میں ہے:

"قلت وفيه غاية القنوت لنازلة أنه ينبغي أن يقنت أياماً معلومةً عن  النبي،وهي قدر شهرٍ،كما في الروايات عن أنس : "أنه قنت شهراً ثم ترك"فاحفظه فهذا إتباع السنة النبوية." 

(إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلة، ج:6، ص:118، ط:إدارۃ القرآن کراچی)

فتاویٰ محمودیۃ میں ہے:

"استمرارِ نازلہ کی حالت میں ایک ماہ سے زائد   مدت تک مسلسل قنوتِ نازلہ پڑھتے رہنا خلاف شرع نہیں ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ،  باب الوتر و القنوت، الفصل الثانی فی القنوت النازلہ،  ج:7،  ص:171،  ط:ادارہ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں