بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار کا مکان خالی کرنے سے انکار کرنا


سوال

میں نے ایک پلاٹ کرائے پر دیا ہے، 5 سال سے،کرائے دار کہتا ہے کہ میں نے اس پر بہت خرچہ کیا ہے، آپ مجھے مزید ایک سال دیں،اس  کا کہنا ہے کہ ورنہ میں لیگل میں چلا جاؤں گا، ہمارا  11 ماہ کا معاہدہ تھا جو  5 ماہ پہلے ختم ہوچکا تھا، میں نے وقتاً فوقتاً ان کو خالی کرنے کا کہتا رہا ہوں،اور یہ جھوٹ بھی ان سے بولا کہ میں نے اس کو بیچ دیا ہے، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

آپ کا کرائے دار کو  جھوٹ  بولنا ناجائز عمل ہے، اس سے توبہ کرنا لازم ہے، اس کی جگہ کوئی ایسا جملہ کہا جاسکتا تھا جو جھوٹ نہ ہوتا اور اس پر گھر چھوڑنے کے لیے دباؤ بھی ہو جاتا۔

آپ اپنی زمین کے مالک ہیں، جب کرائے کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے تو  شرعاً  آپ کا حق ہے کہ آپ اس سے زمین خالی کرائیں اور  جو  خرچہ کرائے دار  نے کیا ہے وہ اپنی لگائی ہوئی چیز نکال کر لے جائے، یا آپ اس کی نکالی ہوئی حالت میں اس کی قیمت ادا کرکے  اس کو حاصل کرلیں۔

اگر مالک  مکان کرایہ دار کو معاہدہ کی مدت مکمل ہونے کے بعد مکان خالی کرنے کا کہے تو اس پر مکان خالی کرنا واجب ہے، اور خالی کرنے سے انکار کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ کرایہ دار مالک کی رضامندی کے بغیر جب تک مکان میں رہے گا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ظالم اور غاصب شمار ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

"قال رسول الله صلی الله علیه و سلم: ألا لاتظلموا، ألا لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".(مشکوٰۃ، ج:1، ص:255، ط:قدیمی)

ترجمہ: خبردار اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔

معاملات کی آسانی اور مغلوبیت سے حفاظت کے لیے اس دعا کا اہتمام کریں:

" اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَ الْکَسْلِ وَ الْبُخْلِ وَ الْجُبْنِ وَ غَلَبَةِ الرَّجَالِ".

ترجمہ: الہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں رنج وغم سے اور عاجزی اور سستی اوربخل اوربزدلی اورلوگوں کے قہر سے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 201):
"وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلاتفسخ من غير عذر".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 223):
"ومنها: انقضاء المدة إلا لعذر؛ لأنّ الثابت إلى غاية ينتهي عند وجود الغاية فتنفسخ الإجارة بانتهاء المدة، إلا إذا كان ثمة عذر بأن انقضت المدة وفي الأرض زرع لم يستحصد فإنه يترك إلى أن يستحصد بأجر المثل، بخلاف ما إذا انقضت المدة وفي الأرض رطبة أو غرس أنه يؤمر بالقلع؛ لأن في ترك الزرع إلى أن يدرك مراعاة الحقين، والنظر من الجانبين؛ لأن لقطعه غاية معلومة".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں