بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچے کو مسجد لانا اور ڈانٹنا


سوال

نابالغ اور 4سال کے بچوں کومسجدلانا اور بچوں کامسجدمیں شورکرنا. کیا بچوں کو شورکرنے سےاورکھیل کود سےزبردستی ڈانٹ ڈپٹ سے منع کرسکتے ہیں؟

جواب

ایسےچھوٹے بچے جو مسجد کے آداب اور پاکی کا خیال نہیں رکھ سکتےاور ان کی وجہ سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو  ان کو مسجد میں لانا مناسب نہیں ہے، البتہ سمجھ دار  بچے جو مسجد کی پاکی اور آداب کا خیال رکھ سکتے ہوں ان کو نماز کی ترغیب کے لیے مسجد میں لانا جائز بلکہ مستحسن ہے؛ تاکہ ان کو نماز کی عادت ہو ، البتہ ساتھ لانے والے کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنے قریب کھڑا کرکے نماز پڑھائیں؛ تاکہ کسی کی  نماز میں خلل واقع نہ ہو۔

باقی اگر کبھی بچے شور کریں تو ان کو پیا  محبت سے سمجھا دیا جائے، الگ الگ  کھڑا کردیا جائے، لیکن انہیں جھڑک دینا درست طرزِ عمل نہیں ،بچے کامسجد میں شور مچانا گناہ نہیں ہے، لیکن اس کو  روکنے کے لیے کسی عاقل بالغ کا اپنی آوا ز  بلند کرلینا یہ آدابِ مسجد کے خلاف اور گناہ کا باعث ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح بچے کے سرپرست کا بچے کو مسجد میں ساتھ لاکر اسے شور مچاتے اور کھیلتے ہوئے چھوڑدینا، سمجھانے کی کوشش نہ کرنا، یا اتنی کم عمر کے بچے لانا جن سے مسجد کی ناپاکی کا اندیشہ ہو، سرپرست کے حق میں مسجد کی بے ادبی اور گناہ ہے۔
"ویحرم إدخال الصبیان والمجانین حیث غلب تنجیسهم".

وفي الشامیة:

(قوله یحرم ...الخ) لما أخرجه المنذري مرفوعاً: جنّبوا مساجد کم صبیانکم... الخ والمراد بالحرمة کراهة التحریم... الخ (شامی ص ۴۸۶، ج ۱) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں