بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دے کر مقروض کے مکان سے نفع اٹھانا


سوال

میں نے ایک شخص کو پانچ لاکھ روپے ادھار دیے، اس کے بدلے میں اس کامکان میں نے گروی رکھ کر کرایہ پر دیا، دس ہزار ما ہ وار پر، وہ شخص مجھے میری رقم دوسال بعد دے گا جوکہ پانچ لاکھ روپے ہی ہوگی، دو سال کا کرایہ میں لوں گا  تیسرے فریق سے،  کیا یہ جائز ہے؟

جواب

آپ جو مذکورہ شخص کے گھر کا کرایہ وصول کر رہے ہیں یہ آپ کے دیے ہوئے قرضے کے مقابلے میں نفع اٹھانا ہے اور اپنے  دیے ہوئے قرض سے نفع اٹھانا شرعاً سود کےحکم میں ہونے  کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے؛ اس لیے آپ کا مذکورہ معاملہ کرنا ناجائز ہے۔

’’أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون.

الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.‘‘ (النتف في الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):
’’لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم. ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً‘‘.

 ’’وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵/ ص۳۱۱) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں