بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے عدالت میں وکالت یا جج کا پیشہ اختیار کرنا


سوال

عورت کے لیے عدالت میں وکالت یا جج کا پیشہ اختیار کرنا،شرعاً  کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ  میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اس کا اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی،  چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔۔۔ الخ اور رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے مسجد جانے کی ضرورت نہ رہی اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا۔بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔

   نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا شرعاً درست نہیں ہے،  اُس کا نفقہ  اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا ؛ تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے،   شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (2/ 467):

" عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان». هذا حديث حسن صحيح غريب".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2054):

"(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال. وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها".

البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو،   ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔

لہذا سوالِ مذکور میں اگر عورت کے لیے شدید مجبوری نہیں ہے تو اس کے لیے بغرضِ ملازمت اس پیشہ کو اختیا ر کرکے  اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں۔ البتہ اگر شدید مجبوری ہے اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو تو ایسا ذریعہ آمدن اختیار کیا جائے جہاں پردے وغیرہ کے احکام کی رعایت ہوسکے۔ اگر بہت ہی مجبوری ہو تو  مندرجہ بالا حدود و قیود کی رعایت کرتے ہوئے  مذکورہ ملازمت کی  گنجائش ہو گی۔

عورت کی طبعی، عقلی اوردینی کم زوری  کی بنا پرمنصبِ قضا  کی مکمل طورپر تفویض عورت کو درست نہیں، اس کے باوجوداگرعورت کومنصبِ قضا  تفویض کردیا جائےتو (گو شرعاً  تفویض کنندگان گناہ گار ہوں گے  لیکن) حدودوقصاص کےعلاوہ باقی معاملات میں عورت کی قضا  اوراس کا فیصلہ معتبرہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں