بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کے عذر کی وجہ مغرب ایک گھنٹہ تاخیر سے اور عصر مثلِ اول کے بعد پڑھنے کا حکم


سوال

 میری کام کی جگہ میرے گھر سے 60 یا 70 کلو میٹر دور ہے اور 15۔4 سے 6 بجے تک ہمارا سفر ہوتا ہے،  راستے میں رک بھی نہیں سکتے ، ہم روزانہ شام 6 بجے اپنے سٹاپ پر اترتے ہیں سردیوں میں جب 5 بجے غروب ہو جاتا ہے تو کیا ہم اس وقت 6 بجے مغرب پڑھ سکتے ہیں؟

اور ستمبر کے آخر میں جب عصر ثانی کا وقت 25۔4 سے شروع ہو کر 6 بجے مغرب ہو جاتی ہے تو اس وقت عصر کی نماز کی ادائیگی کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

1۔۔مغرب کی نماز کا وقت سورج غروب ہوجانے کے بعد سے لے کر آسمان پر جو سرخی ہوتی ہے اس کے ختم ہونے کے بعد جو سفیدی آتی ہے، اس تک باقی رہتا ہے، اس کے فوراً بعد عشاء کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے، البتہ مغرب کی نماز جلدی یعنی سورج غروب ہوتے ہی فوراً پڑھنا افضل ہے، اور بلاعذر ستاروں کے چمکنے تک  تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے، لہذا اگر آپ کے علاقے میں سردیوں میں پانچ بجے مغرب کا وقت داخل ہوجاتا ہو  تو کوشش یہ کریں کہ گاڑی والے سے بات کرکے راستہ میں کہیں گاڑی رکوا کر مغرب کی نماز ادا کرلیں ، اگرکوشش کے باوجود یہ ممکن نہ ہو تو  آپ چھ بجے گھر پہنچ کر مغرب کی نماز ادا کرسکتے ہیں، اس لیے مغرب اور عشاء کا درمیانی فاصلہ کم از کم سوا گھنٹہ کا ہوتا ہے۔

2۔۔ ظہر کی نماز کا آخری وقت اس وقت تک ہوتا ہے جب  ہر چیز کا سایہ، اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دوگنا) ہوجائے، اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، لہذا اس صورت میں گاڑی والے سے بات کرکے چار بج کر پچیس منٹ پر عصر پڑھ کر گاڑی میں سوار ہوں، اس سلسلے میں تمام مسلمان مل کر انتظامیہ سے بھی بات کریں ورنہ راستہ میں کہیں گاڑی رکواکر نماز ادا کریں، ان تمام تر کوشش کے باوجود کبھی ایسا ہوجائے کہ  گاڑی نکل رہی ہو اور دوران سفر گاڑی نہ  رکتی ہو اور مقام پر پہنچتے ہوئے عصر کی نماز وقت نکلنے کا اندیشہ ہو تو صاحبین رحمہما اللہ کے قول کے مطابق مثل اول (جب ہر چیز کا سایہ، سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہوجائے) کے بعد  عصر کی نماز پڑھ  کر گاڑی میں بیٹھ جانے کی گنجائش ہے۔

المبسوط للسرخسي (1/ 147):

"فأما صلاة المغرب فالمستحب تعجيلها في كل وقت وقد بينا أن تأخيرها مكروه وكان عيسى بن أبان - رحمه الله تعالى - يقول الأولى تعجيلها للآثار ولكن لايكره التأخير مطلقاً، ألا ترى أن بعذر السفر والمرض تؤخر المغرب ليجمع بينها وبين العشاء فعلاً، فلو كان المذهب كراهة التأخير لما أبيح ذلك بعذر السفر والمرض كما لايباح تأخير العصر إلى أن تتغير الشمس واستدل فيه بما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ سورة الأعراف في صلاة المغرب ليلةً». وإنما يحمل ذلك على بيان امتداد الوقت وإباحة التأخير".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: إلى بلوغ الظل مثليه) هذا ظاهر الرواية عن الإمام نهاية، وهو الصحيح، بدائع ومحيط وينابيع، وهو المختار غياثية واختاره الإمام المحبوبي وعول عليه النسفي وصدر الشريعة تصحيح قاسم، واختاره أصحاب المتون، وارتضاه الشارحون، فقول الطحاوي: "وبقولهما نأخذ" لايدل على أنه المذهب، وما في الفيض من: أنه يفتى بقولهما في العصر والعشاء مسلم في العشاء فقط على ما فيه، وتمامه في البحر...

 (قوله: وهو نص في الباب) فيه أن الأدلة تكافأت ولم يظهر ضعف دليل الإمام، بل أدلته قوية أيضا كما يعلم من مراجعة المطولات وشرح المنية. وقد قال في البحر: لايعدل عن قول الإمام إلى قولهما أو قول أحدهما إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل، بخلافه كالمزارعة وإن صرح المشايخ بأن الفتوى على قولهما كما هنا". (رد المحتار علي الدر المختار، كتاب الصلوة (1/ 359)، ط: سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"والذي تحقق  عند إمام العصر شيخنا في جوابه ما أفاده مع توطئته بمقدمة قبله قال: قد ثبت عندي من استقراء الأحاديث وجميع الروايات عن أبي حنيفة  رحمه الله (يأتي تفصيل تلك الروايات  في محله في باب المواقيت ) إن المثل الأول بعد زوال الشمس خاص بالظهر، والمثل الثالث وما بعده إلى الغروب خاص بالعصر، وأما المثل الثاني فوقت مشترك بين الظهر والعصر لأصحاب الأعذار، وبتعبير آخر: المثل الأول من بعد الزوال وقت الاختيار، والمثل الثاني وقت الضرورة للظهر، ... فعلى ضوء من ذالك يستساغ أن يقال: إن المستحاضة لتغتسل في المثل الثاني، فتصلي الظهر ثم العصركلتيهما في المثل الثاني فيصدق أنها صلت الظهر في وقته  فإنه خرج وقت الاختيار المختص بالظهر لا وقت الضرورة". (معارف السنن للشیخ البنوری، باب  فی المستحاضہ،  تحقیق للشیخ فی حل ذلک الاشکال  بان المثل الثانی وقت مشترک بین الظھر والعصر للمعذورین (1/493، 494) ط: مجلس الدعوۃ والتحقیق الاسلامی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں