بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاز میں ایک دن کا سفر بغیر محرم کیوں ناجائز ہے؟


سوال

یہ مسئلہ بیان کیا جاتاہے کہ ’’اگر اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت کا سفرہو تو جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم یا شوہر ساتھ نہ ہو اس وقت تک عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت (سواستتر کلومیٹر)کے بقدر سفر کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو‘‘۔

پوچھنا یہ تھا کہ آج کل سفر زیادہ لمبا ہوتا ہے، لیکن اس میں ٹائم کم لگتا ہے،  کیا اس صورت میں عورت اکیلی سفر کر سکتی ہے؟  مثال کے طور پر امریکا کا سفر ستتر کلو میٹر سے زیادہ ہے، لیکن اس میں تین راتیں نہیں لگتیں، بلکہ 24 گھنٹے میں بندہ پہنچ جاتا ہے تو کیا اس سفر کے موقع پر بھی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس زمانے اور ماحول میں اسلامی اَحکام نازل ہوئے اس وقت سفر عموماً پیدل یا اونٹ پر کیا جاتا تھا، نیز قافلے کی صورت میں سفر ہوتا تھا، دورانِ سفر قافلے کے شرکاء اور سواریوں کی ضروریات کا لحاظ رکھ کر مسافت طے کی جاتی تھی، اور یومیہ ایک خاص وقت میں سفر کرکے بقیہ دن قافلے کو آرام اور تقاضے پورے کرنے کا وقت دیا جاتا تھا، اس اعتبار سے شریعت میں تین دن  تین رات کے سفر کو مسافتِ سفر  قرار دیا گیا۔

اب ایک دن رات میں (مذکورہ تفصیل ملحوظ رکھتے ہوئے) معتدل انداز  میں سفر کرتے ہوئے کتنی مسافت طے کی جاسکتی ہے؟ اس کی تحدید میں فقہاءِ کرام کی آراء مختلف ہیں، احناف نے روایات کی روشنی میں تین دن تین رات سفر کی مسافت کی تحدید اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیٹر) بیان کی ہے۔

معلوم ہواکہ سفرِ شرعی میں اصل اعتبار اُتنی مسافت کا ہے جو اُس زمانے میں تین دن تین رات میں طے ہوتی تھی، نہ کہ اصل مقصود تین دن اور تین رات مسلسل سفر کرنا ہے،  چناں چہ قدیم زمانے میں بھی ’’برید‘‘ (ڈاک کے گھوڑے) بہت تیز رفتاری سے اور مسلسل سفر طے کرکے پیغامات پہنچاتے تھے، لیکن اس کا اعتبار نہیں کیا گیا، لہٰذا موجودہ دور میں بھی اگر یہی مسافت تیز رفتار سواری سے ایک گھنٹے یا چند منٹ میں ہی طے کرلی جائے یا آئندہ دور میں اس سے بھی کم وقت میں طے کرلی جائے تب بھی اتنی ہی مسافت کا اعتبار ہوگا۔ 

مذکورہ تفصیل کی رو سے عورت کا محرم کے بغیر سوا ستتر کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ اپنی مطلوبہ منزل پر تین دن سے پہلے ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 94):
"وعلى هذا يخرج ما روي عن أبي حنيفة فيمن سار في الماء يوما وذلك في البر ثلاثة أيام أنه يقصر الصلاة؛ لأنه لا عبرة للإسراع، وكذا لو سار في البر إلى موضع في يوم أو يومين وأنه بسير الإبل والمشي المعتاد ثلاثة أيام يقصر اعتبارا للسير المعتاد، وعلى هذا إذا سافر في الجبال والعقبات أنه يعتبر مسيرة ثلاثة أيام فيها لا في السهل، فالحاصل أن التقدير بمسيرة ثلاثة أيام أو بالمراحل في السهل والجبل والبر والبحر ثم يعتبر في كل ذلك السير المعتاد فيه وذلك معلوم عند الناس فيرجع إليهم عند الاشتباه".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں