جس بندے پے 30 لاکھ تک قرض ہو، کیا اسے دوسرا بندہ 5 لاکھ یا اس سے زیادہ پیسے زکاۃ کے طور پر دے سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی تیس لاکھ کا مقروض ہو اور اس کے پاس نہ اتنی چاندی، سونا یا نقدی یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد اتنی جائیداد ہو کہ تیس لاکھ قرض کی ادائیگی کے بعد وہ صاحبِ نصاب شمار کیا جاسکے اور (قرض کی ادائیگی کے بعد) نہ ہی اس کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان (اضافی گھر یا گاڑی وغیرہ) ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو ایسی صورت میں اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ ہاشمی نہ ہو۔
نوٹ:(1) یہ فقط مسئلہ کا جواب ہے کسی شخص کے حوالہ سے نہ تصدیق ہے اور نہ ہی سفارش۔
(2) واضح رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ دائنین کی طرف سے مکمل قرض کی ادائیگی کا مطالبہ ہو، اگر تیس لاکھ قرضہ کئی سال کی اقساط میں واجب الادا ہو، یا تجارت کو وسعت دینے کے لیے بڑی رقم بینک وغیرہ سے قرض لی ہو تو دوبارہ سوال کرکے معلوم کرلیجیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201175
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن