بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی، بھتیجے اور بھتیجیوں میں تقسیم وراث


سوال

محمد مرتضیٰ،شمس الحق اور عبدالجبار تین سگے بھائی تھے۔عبد الجبار کے دونوں بھائیوں کا عبدالجبار کے سامنے ہی انتقال ہو گیا تھا اور مرتضیٰ نے اپنے پیچھے چار بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے، اور شمس الحق نے تین بیٹے اور تین بیٹی چھوڑیں، اور اب عبدالجبار کا انتقال ہوا ہے انہوں نے اپنے پیچھے صرف ایک لڑکی چھوڑی ہے معلوم کرنا ہے کہ عبدالجبار کی وراثت کس طرح تقسیم کی جائے گی؟  وراثت مذکورہ لوگوں میں ہی تقسیم کرنا ہے؛ کیوں کہ اصول و فروع میں ان کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں عبد الجبار کے ترکہ سے حقوقِ متقدمہ (قرض، وصیت وغیرہ) کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ میں سے 50% اس کی بیٹی کو اور 10% اس کے ہر بھتیجے کو ملے گا۔بھتیجوں کی موجودگی میں بھتیجیاں عبدالجبار کے شرعی ورثاء میں شامل نہیں ہیں۔

نوٹ : یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ عبدالجبار کے ورثاء میں اس کی بیوہ نہ ہو۔

الفتاوى الهندية (6 / 451):
"وإذا اجتمع جماعة من العصبة في درجة واحدة يقسم المال عليهم باعتبار أبدانهم لا باعتبار أصولهم مثاله ابن أخ وعشرة بني أخ آخر أو ابن عم وعشرة بني عم آخر المال بينهم على أحد عشر سهماً لكل واحد سهم".

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2 / 309):
"[باب ذوي الأرحام]
قال - رحمه الله -: (وإذا لم يكن للميت عصبة ولا ذو سهم ورثه ذوو الأرحام) والأصل في هذا أن ذوي الأرحام أولى بالميراث من بيت المال؛ لقوله تعالى: {وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض في كتاب الله} [الأنفال: 75]. (قوله: وهم عشرة ولد البنت وولد الأخت وبنت الأخ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں