ایک امامِ مسجد کی تنخواہ 7000ہزار ہے اور 4500 چار ہزار پانچ سو ٹیوشنز سے مل جاتے ہیں کل آمدن 11500ہزار بن جاتی ہے، رہائش، بجلی، گیس، دودھ مسجد والوں کی طرف سے ہے، باقی گھر کے تمام اخراجات امام صاحب اپنی تنخواہ سے پورے کرتے ہیں، ان کا کنبہ 7 افراد (امام صاحب'اہلیہ محترمہ'دوبیٹے'3بیٹیاں) پر مشتمل ہے، امام صاحب مسجد کے خادم اور مؤذن بھی خود ہی ہیں، ان کے لیے عیدالفطر پر 10 سے 15ہزارروپے اکٹھےہوتےہیں، کیا اس عیدی کی رقم ملنے سے ان پر فطرانہ واجب ہے؟ جب کہ وہ ہر سال فطرانہ دیتے ہیں، اگر ہم انہیں فطرانہ دیں، وہ نہیں لیتے، کیا انہیں فطرانہ اور جانور کی کھال دے سکتے ہیں، اس مہنگائی کے دور میں ان کی آمدن کو دیکھتے ہوئے؟
واضح رہے کہ جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکاۃ واجب ہو یا اس پر زکاۃ تو واجب نہیں، لیکن ضروری اسباب سے ز ائد اتنی قیمت کا مال یا سامان اس کے پاس موجود ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہوتاہے، چاہے وہ مال تجارت کا ہو یانہ ہو، اور چاہے سال پورا گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو ،لہذا اگر مذکورہ امام صاحب کے پاس نقدی اور ضرورت سے زائد اتنا سامان موجودہے جس کی قیمت نصاب تک پہنچ جاتی ہے تو ان پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے ورنہ نہیں، اگر امام صاحب لوگوں سے فطرانہ قبول نہیں کرتے تو بہت اچھی بات ہے ایسے خود دار امام کی ضروریات کا خیال صاف رقم سے رکھا جائے۔
قربانی کی کھال اگر امام صاحب قبول کرتے ہوں تو ان کو دی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن