بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پنجاب حکومت کا اسلام کو اسلامیات تک محدود کرنے کا نوٹیفکیشن

پنجاب حکومت کا اسلام کو اسلامیات تک محدود کرنے کا نوٹیفکیشن

 

سپریم کورٹ نے ۲۰۱۴ء میں اقلیتوں کے مطالبہ پر اسکولوں کے نصابِ تعلیم کے حوالہ سے جناب شعیب سڈل پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کرکے رپورٹ اور تجاویزطلب کیں تو انہوں نے اپنی رپورٹ میں تجویز کردیا کہ اسکولوں کے نصابِ تعلیم میں اردو، انگریزی، معاشرتی علوم کی کتب سے حمد، نعت، خلفائے اسلام، تاریخِ اسلام کی نامور شخصیات اور مسلمانوں کے حوالے سے تاریخی حوالہ جات ختم کیے جائیں اور انہیں اسلامیات تک محدود کیا جائے۔ ان مضامین میں اسلامی مواد، مذہبی ہدایت دینے کے مترادف ہے، کسی غیر مسلم کو یہ مواد پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ پرائمری نصاب سے ایسے مضامین کا اخراج کیا جائے۔ یہ رپورٹ ابھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بغیر پنجاب حکومت کے ہیومن رائٹس اینڈ مینارٹی افئیر ڈیپارٹمنٹ کے جاری کردہ مراسلے میں سیکرٹری اسکول پنجاب کو ہدایت کردی گئی کہ وہ ڈاکٹر شعیب سڈل کے ایک رکنی کمیشن کی سفارشات کے مطابق مذہبی مواد نصابی کتب سے خارج کردے۔ 
اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا، قومی اقلیتی کمیشن، اسلامی نظریاتی کونسل اور پنجاب کے متحدہ علماء بورڈ نے اس کو مسترد کردیا، اس لیے گورنر پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اس پر عمل درآمد کو فی الحال رکوادیا ہے۔ اس صورت حال میں اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ پاکستان کے مقتدر راہنماؤں کا درج ذیل تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
’’حال ہی میں سپریم کورٹ کے قائم کردہ ون مین کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے، پھر اس کی متابعت (Follow Up) میں پنجاب ہیومن رائٹس اینڈ مائنارٹی افیئرز ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ کو ہدایت جاری کی ہے کہ اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین کی نصابی کتب میں حمد ، نعت، سیرت النبیؐ اور دیگر دینی موضوعات پر مواد کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے، اور پنجاب ہیومن رائٹس کمیشن نے پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ کو یہ ہدایات بھی جاری کر دی ہیں کہ اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین کی نصابی کتب سے اسلام کی ان ساری علامات کو نکال دیا جائے۔ یہ ون مین کمیشن کی طرف سے اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اپنی انفرادی رائے مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ ملک کے نمائندہ قومی اقلیتی کمیشن نے جس میں تمام مذاہب کی نمائندگی ہے، اس ون مین کمیشن کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس کی اس انفرادی رائے کی پر زور مخالفت کی ہے کہ نصاب میں ایسی تبدیلی کی جائے۔ اقلیتیں چاہیں تو اسلامیات کے مضمون کے متبادل اپنے طلبہ و طالبات کے لیے اپنے مذہبی اخلاقیات و تعلیمات پر مشتمل نصابی کتابیں مرتب کر کے نصاب میں شامل کرا سکتے ہیں، لیکن انہیں یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پچانوے ستانوے فیصد تک آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، دو تین فیصد آبادی پر مشتمل طبقہ پورے نظامِ تعلیم کو ڈکٹیٹ کرے، یہ جمہوری اقدار اور اکثریت کے مذہبی حقوق کے خلاف ہے۔ کیا مشنری اداروں اور اشرافیہ کے لیے قائم جدید ترین تعلیمی اداروں کے نصاب کا کسی نے اس جہت سے جائزہ لیا ہے؟ ان کا تجزیہ کیا ہے؟ کیا سنگاپور ، ہانگ کانگ، برطانیہ اور امریکا وغیر ہ سے درآمد نصابی کتب کا کسی نے تفصیلی جائزہ لیا ہے؟ ان پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے؟ 
اگر ہمارے حکمرانوں کی یہی روش رہی تو اس ملک میں دینی و مذہبی حقوق کے اعتبار سے پچانوے ستانوے فیصد مسلم آبادی اقلیت بن کر رہ جائے گی۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کمیشن کی تشکیل کو متوازن نہیں بنایا، تاکہ ایسی تجاویز سامنے آئیں جو سب کے لیے کسی نہ کسی درجے میں قابل قبول ہوتیں۔ ہم پنجاب حکومت، پنجاب مائنارٹی افیئر ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ (PCTB) کو متنبہ کرتے ہیں کہ کسی ایسے اقدام سے پہلے اس بارے میں تمام طبقات کی آراء طلب کی جائیں، صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیاں ان پر عمیق نظر سے غور و فکر کریں، تا کہ ملک میں انتشار پیدا نہ ہو۔ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں، انہیں تمام آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہیں، لیکن ان کو بھی غالب ترین اکثریت کے دینی اور مذہبی جذبات کا پاس رکھنا ہو گا۔ اگر یہ پالیسی جاری رہی تو ایک وقت آئے گا کہ یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ تحریکِ پاکستان، متحدہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے اسباب اور تاریخِ پاکستان کو ہمارے قومی نصاب سے خارج کر دیا جائے، کیونکہ یہ دو قومی نظریے پر مبنی ہے اور اس سے اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ نیز آگے چل کر یہ مطالبہ بھی آسکتا ہے کہ دستورِ پاکستان سے قرآن و سنت کی بالادستی اور دیگر آرٹیکلز کو نکالا جائے۔ اگر روزِ اول سے اس سازش کا سدِباب نہ کیا گیا تو آگے چل کر یہ اقدامات بڑے پیمانے پر ملک میں انتشار کا باعث بنیں گے، جبکہ ملک پہلے ہی سیاسی انتشار کی زد میں ہے، اس لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ شروع ہی سے اس کا سدِباب کیا جائے۔‘‘
ان حالات میں لگ یہ رہا ہے کہ ہماری حکومتی مشینری پوری قوت اور شدومد کے ساتھ اس ڈیوٹی پر مامور ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے اسلام اور آئین میں موجود اسلامی شقوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے اور اس ملک کو سیکولر ملک /اسٹیٹ باور کرایا جائے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جب ہمارے حکمران ہر معاملے میں بھکاری بن کر کبھی تعلیم کے نام پر، کبھی صحت کے نام پر اور کبھی ملکی ترقی کے نام پر دوسروں سے بھیک مانگیں گے اور فنڈ وصول کریں گے تو بیرونی قوتیں اور لابیاں اپنی این جی اوز کے ذریعہ حکومتوں اور اداروں کو بلیک میل کریں گے۔
۱:-آج ان تمام مضامین کو اسلامیات میں داخل کرنے کی بات کی جارہی ہے، کل کو کہا جائے گا کہ اسلامیات کی کتاب میں مذہبی موضوعات کی بھرمار ہوگئی ہے، بچوں کے لیے یاد کرنا مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے ان میں تخفیف کی جائے، چلو اسلامیات سے بھی ان مضامین کی چھٹی۔
۲:-ہمارے بزرجمہروں نے عملاً جہاد کو پہلے ہی دہشت گردی کا نام دے دیا، رہے جہاد کے مضامین، ان کو بھی کافی حد تک نصاب سے خارج کردیا ، اب آگے کیا گارنٹی ہے؟ کہ یہ نہ کہا جائے گا کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج حتیٰ کہ قرآن اور اسلام کو نصابِ تعلیم سے نکال باہر کریں، کیونکہ اس سے بنیاد پرستی کے جراثیم پروان چڑھتے ہیں، اس لیے یہ بھی ناقابلِ برداشت ہیں، تو آپ کے پاس ان باتوں کا کیا جواب ہوگا؟
۳:-آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق زندگی ممکن بنانے کے لیے ریاست ہر طرح کا بندوبست کرے، جو ریاست نظامِ تعلیم سے اسلام کے متعلق ہر بات کھرچ کھرچ کر نکال دے، وہ اپنی اس آئینی ذمہ داری کو کیسے پورا کرے گی؟
۴:- کیا وجہ ہے کہ پچانوے فیصد سے زائد یہاں مسلمان ہیں، ملک اسلام کے نام پر بنا ہے، اس ملک کا آئین اسلامی ہے، تو کیا پانچ فیصد سے کم اقلیتوں کے خوف سے پورا نصاب ہی تبدیل کردیا جائے؟ اقلیت کے خوف سے اکثریت کواپنے حق سے محروم رکھا جائے۔
۵:- جب کہ اقلیت کے لیے پہلے سے رائج قانون ہے کہ ان کو یہ مضامین پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسلامی تعلیم سے ان سے امتحان لیا جائے گا۔
۶:- جب کہ اقلیتیں بھی اس ملک کی ہیں، اگرچہ انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ قرآن کریم ’’لَاإِکْرَاہَ فِيْ الدِّیْنِ‘‘ کہہ کر منع کرتا ہے کہ غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن اسلامی تعلیم سے روشناس کرانا تو اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔
۷:- کیا ان ۷۴ سالوں میں کبھی کسی غیرمسلم بچے نے یہ کہا کہ: اس پرائمری نصاب میں شامل مضامین کی اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوکر میں نے اسلام قبول کیا ہے۔
۸:- اردو بحیثیت اردو، انگریزی بحیثیت انگریزی اور معاشرتی معلومات کیا گھوڑوں، گدھوں، بلیوں اور ہندو، سکھ، یا کسی دوسرے ازم سے متعلق شخصیات کے قصہ کہانیوں سے سیکھی جاسکتی ہے اور اسلامی لٹریچر اور اسلامی شخصیات سے نہیں، ایسا تعصب کیوں؟
پرویز مشرف کے دور میں بھی اخبارات میں یہ خبریں آئی تھیں کہ سرکاری اسکول وکالج کی دینیات، اسلامیات، معاشرتی علوم اور جغرافیہ کے نصاب میں تبدیلی کرکے اس سے آیاتِ جہاد، جہاد کے مضامین، مینارِ پاکستان، ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے شہداء کے تذکرے، بھارت سے ممکنہ نفرت پیدا کرنے والے مضامین، قیامِ پاکستان کے بعد ملکی اثاثوں کی تقسیم، مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلمان خواتین کی عصمت دری وبے حرمتی وغیرہ کے موضوعات پر مبنی تمام ابواب نکالے جائیں۔ ’’پرانے شکاری نیا جال‘‘ کے مصداق اب یہ رپورٹ سامنے لائی گئی ہے، تاکہ مسلمانوں کا ردِ عمل جانچا جائے اور ان اداروں میں چھپے بیرونی ایجنٹ اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کوئی خبر آئے اور ہم اس پر عمل کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کریں۔
اس پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک اس کمیشن نے اپنی تئیں یہ سفارشات مرتب کیں، اور ۳۰ مارچ ۲۰۲۱ء کو سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، لیکن پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بیٹھے آلۂ کار اس پر احکامات بھی دینے لگ گئے۔ خبروں میں ہے کہ وزیرِتعلیم ان ہدایات کی نفی کررہا ہے، لیکن گورنر پنجاب اس نوٹیفکیشن کو روکنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔ آخر سچ کیا ہے؟ اور جھوٹ کیا ہے؟ 
ان حالات میں تمام پاکستانی عوام اور خصوصاً دینی طبقہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیدار اور ہوشیار رہ کر ان حالات کے مضمرات پر خوب غوروفکر کرکے اس کے لیے کوئی مستقل اور پائیدار لائحہ عمل بنانے کی کوشش کریں ، ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلت، سستی اور کاہلی کی سزا آنے والی نسلوں کو بھگتنی پڑے، ولافعل اللہ ذٰلک۔ إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت وما توفیقي إلا باللہ علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین