بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ (مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب)

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  

 

مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

 

مکتوب حضرت بنوری رحمہ اللہ بنام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
من سملک تحريرًا في ۲۹ محرم الحرام ۱۳۶۱ھ 
سیدي مولائي متّعنا اللہ سبحانہٗ إيانا والأمۃَ ببرکاتکم الظاہرۃ والباطنۃ، آمين!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! (۱)

بہت دن ہوئے کہ کوئی عریضہ ارسالِ خدمت نہ کرسکا، جس سے مزاجِ اقدس کی صحت معلوم ہوتی۔ اُمید ہے کہ حضرت والا خیر وعافیت سے ہوں گے، اور مشتاقوں کو اپنے فیوض سے سیراب فرماتے ہوں گے، اللّٰہمّ زِدْ فَزِدْ! جی بہت چاہتا ہے کہ چند ایام‘ فیضِ صحبت نصیب ہوتا، کیا کیا جائے؟! احتیاج واشتیاق دونوں ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی صورت میسر فرمائے، اور توفیق عطا فرمائے۔ (۲)
چند ایام سے بعض اشغال کی توفیق سے محرومی سی ہورہی ہے، حضرت والا کی مُربّیانہ اور بزرگانہ شفقت سے التجا کرتا ہوں کہ دعا سے نوازیں، شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے، اور بیش از بیش توفیقِ خیرات نصیب فرمائے۔(۳)
آج کل جامعہ اسلامیہ (ڈابھیل، گجرات، انڈیا) سے علیحدہ ہوگیا ہوں، اور مجلسِ علمی میں بصیغۂ تالیف کام کرتا ہوں، مغرب سے عشاء تک بعض طلبہ کو پڑھاتا ہوں، آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ علمِ نافع اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے، اور حسنِ نیت سے نوازے۔ ظاہری اعتبار سے جو زندگی اس وقت گزر رہی، علمی حیثیت سے بہت مُغْتَنَم ہے، اور لذیذ ترین مشغلہ ہے، جو حق تعالیٰ کے لاکھ لاکھ شکر کا مُوجِب ہے، حق تعالیٰ اس کو باطنی ورفعی حیثیت سے میرے لیے سعادتِ دارین کا سبب بنائے۔ (۴)
وعلٰی کلّ حالٍ أرجوکم يا سيدي ومولاي أن تمنّوا علی خُوَيْدِمِکُم بدعواتٍ صالحۃٍ ونظراتٍ وتوجُّہاتٍ، واللہ سبحانہٗ يُطيلُ بقائکم في برکاتٍ مُمتعۃ، ويُديمَ مآثرہا في العالم ظاہرًا وباطنًا۔(۵)
والسلام ختامٌ، وصلّی اللہ علٰی صَفوَۃِ البريّۃِ سيدِنا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلّم ۔
                                              وأنا الأحقر خُوَيْدِمُکُم
                                        محمد يوسف البنوري عفا اللہُ عنہ
                              الُمقيم بالمجلس العلمي في سملک دابہيل (سورت)

                                                                                                                             ۳۰ محرم الحرام سنۃ ۱۳۶۱ھ 

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ

(۱) السلام علیکم ! 
(۲) یہ آپ کی محبت ہے، ورنہ 

چراغِ مردہ کجا نورِ آفتاب کجا 
ببیں تفاوتِ رہ از کجا ست تا بکجا (حاشیہ:1)

میں اپنی ہی اصلاح نہ کرسکا، دوسروں کی کیا کرسکتا؟! لیکن حسنِ ظن کے مؤثر ہونے کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
(۳) دل وجان سے دعا کرتا ہوں۔
(۴) دل سے یہی دعا ہے، لیکن باطنی ترقی کے لیے محض ظاہری علم کا مشغلہ عادۃً ممتنع تو نہیں، لیکن اکثر غیر کافی ہوتا ہے۔ 
(۵) ہٰذا کلّہٗ من أعمالي، ويشترط لتأثيرہا شيئ من عملکم، واللہ الموفّق۔

من الجامعۃ تحريرًا في ۴ جمادی الأخری سنۃ ۱۳۶۱ھ
صاحبَ المعالي السائرۃ والمآثر الفاخرۃ، سيدي ومولائي، أدام اللہُ برکاتِکم المبارکۃ، آمين!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! (۱)

مدت سے عریضہ لکھنے کا قصد کر رہا ہوں، مگر توفیق نہ ہوئی، اُمید ہے کہ حضرت والا خیر وعافیت سے ہوں گے۔ (۲)
شیخ محمد زاہد کوثری کے مصر سے کئی خطوط آئے، ہر ایک خط میں انتہائی عقیدت مندی سے آپ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کو تحریر فرمایا۔ (۳)
ان کی دو نئی تصنیفیں بھی پہنچی ہیں: ایک امام الحرمین کی کتاب ’’مُغيثُ الخلق‘‘ کا جواب ہے، امام الحرمین نے مذہبِ شافعی کی ترجیح کے وجوہ بیان کیے، اور اس انداز سے جس سے حنفیت کی تنقیص نکلتی ہے، کوثری کی کتاب کا نام ’’إحقاق الحق بإبطال الباطل من مغيث الخلق‘‘ ہے۔ دوسری کتاب خطیب بغدادی (کی کتاب) کا رد نہایت آب وتاب سے شائع ہوئی ہے، جس کا نام ’’تأنيب الخطيب علی ما ساقہٗ في ترجمۃ أبي حنيفۃ من الأکاذيب‘‘ ہے۔ ثانی الذکر کتاب میں سو نسخوں میں مجلسِ علمی نے اشتراک کیا ہے، نسخے مطلوبہ ابھی نہیں پہنچے، پہنچنے پر خدمتِ اقدس میں ارسال کریں گے۔ نیز ’’إحقاق الحق‘‘ کے بھی چند نسخے طلب کیے ہیں، وہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ارسال کریں گے۔ (۴)
نیز اس عرصہ میں کئی کتابوں پر ان کی تعلیقات ومقدمات طبع ہوگئے ہیں، جن کا ایک ایک نسخہ مجلس کو بطورِ ہدیہ ارسال فرما چکے ہیں، سب تعلیقات میں، ومقدمات وتصانیف میں ان کے علمی خصائص وکمالات نمایاں ہیں۔ (۵)
عرصہ سے چند خواب دیکھے ہیں، جن (میں) شاید زیادہ قابلِ ذکر دو ہیں: 
(۱)  دیکھتا ہوں کہ آپ کا سینہ مبارک دودھ سے بہت بھر گیا، جس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف کو کم کرنے کے لیے میں نے بائیں جانب پر منہ لگایا، اور دودھ نکالتا ہوں، کچھ نگلتا ہوں اور کچھ گراتا بھی جاتا ہوں۔(حاشیہ:2)
(۲)  تھانہ بھون حاضر ہوا ہوں، لیکن نقشہ کچھ اور ہے، خیال کیا کہ عشاء کی نماز آپ کے پیچھے پڑھوں، مسجد میں پہنچا، دیکھتا ہوں کہ لوگ آپ کی تشریف آوری کے انتظار میں کھڑے (ہیں)؛ تاکہ آپ نماز پڑھائیں، دیر بہت ہوگئی تھی، لوگوں نے مجھے آگے کیا، اور میں نے نماز پڑھائی۔ (۶)
اور کوئی قابلِ ذکر چیز اس عریضہ کے مناسب نہیں۔ 
وفي الخِتام اُقَبِّلُ يديکم الکريمتين راجيًا دعواتِکم۔ 
                                      محمد یوسف البنوري عفا اللہ عنہ 
                                                  از ڈابھیل 

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ 

(۱)  السلام علیکم!
(۲)  ہاں، الحمدللہ! 
(۳)  یہ ان کی بزرگی ہے، ورنہ 

چراغِ مردہ کجا نورِ آفتاب کجا 
ببیں تفاوتِ رہ از کجا ست تا بکجا (حاشیہ:3)

اگر اب کی بار آپ کوئی خط ان کو لکھیں تو میرا بہت بہت سلام مع استدعاء دعا ضرور لکھیں۔ 
(۴)  مجھ پر احسان ہوگا، دعا کیجیے کہ یہ کتابیں میرے زیادتِ علم کا ذریعہ ہوں۔ 
(۵)  ما شاء اللہ! متّع المسلمین بعلومہٖ۔
(۶)  مجھ کو تعبیر سے کوئی خاص مناسبت نہیں، لیکن غالباً آپ اس عذر کو تکلُّف سمجھیں گے، اس لیے ’’زصاف و درد پیش آر آنچہ داری‘‘ (حاشیہ:4)پر عمل کرتا ہوں: خوابِ اول کے رائی (دیکھنے والا) کوئی خُرد (چھوٹا) اور مرئی لہ (جس کے لیے دیکھا گیا) کوئی بزرگ ہوتے تو میں درجۂ ظن میں یہ تعبیر دینا تجویز کرتا کہ مرئی لہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے نافع علوم عطا فرمائے ہیں، جن کے اِفادہ کا ان پر تقاضا ہے، اور عدمِ استفادہ سے ناگواری ہے۔ رائی نے ان کو اخذ کیا ہے (حالًا یا استقبالًا) اور دوسروں کو بھی سرکایا ہے۔ کچھ کچھ گرنا اس طرف اشارہ ہے: ’’اگر شراب خوری جرعہ فشاں بر خاک‘‘(حاشیہ:5)
(دوسرا خواب) اس استفادہ کی ایک صورت ہے کہ رائی نے نیابت کی مرئی لہ کی اعمالِ دینیہ میں، جو کہ استفادۂ علوم سے مقصود ہے۔

من سملک في ۱۹ رمضان المبارک، یوم الخميس، سنۃ ۱۳۶۱ھ
صاحب المآثر و المفاخر، سيدي و مولائي، متّع اللہ العلم و أہلہٗ بطول حياتکم، آمين!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! (۱)

مدت سے کوئی عریضہ ارسال کرنے کا فخر حاصل نہیں کرسکا، حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے اُمید ہے کہ حضرت اقدس بخیر وعافیت ہوں گے۔(۲)  اور مشتاقانِ برکات وفیوض کو آبِ حیات سے سرشار فرماتے ہوں گے۔ 
نسأل اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ أن يُطيل حياتَکم الطيّبۃ في عافيۃ کاملۃ، وأن يُديم لنا وللأمۃ جمعاء برکاتہا وأنوارہا فائضۃ شاملۃ۔ (۳)
اس سال چونکہ گھر والے (ڈابھیل میں) ساتھ تھے، اس لیے ایامِ تعطیل میں یہیں قیام کیا، اگرچہ والد ماجد کی زیارت سے اور تبدیلیِ آب وہوا ولقاء اعزہ سے محروم رہا، لیکن مجبوراً بعض وجوہ سے یہ صورت اختیار کرنا پڑی۔ (۴)
ماہِ رمضان المبارک ہے، خلافِ توقع اوقات ضائع گزر رہے ہیں، اگر ان مبارک اوقات، مبارک احوال میں ایک دو دفعہ اپنے مبارک ومستجاب دعوات سے سرفراز فرمائیں تو احسان ہوگا، وأجرکم علی اللہ سبحانہٗ وتعالی۔(۵)
’’دلائل الخیرات‘‘ پڑھتے وقت درود کے بعض صیغے ایسے آتے ہیں، جن کے پڑھنے (سے) طبیعت اِباء کرتی ہے، جیسے: ’’۔ اگرچہ معقول توجیہ وتاویل اس کی ہوسکتی ہے، لیکن لفظی اِبہام کی وجہ سے طبیعت برداشت نہیں کرسکتی، اور ’’دلائل‘‘ ترک کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا، ایسی صورت میں کیا صورت اختیار کروں؟ کیا ’’دلائل‘‘ کی قراءت ترک کردوں؟ یا تاویل کرکے پڑھتا رہوں؟ یا ان کلمات کی تبدیلی مناسب کلمات سے کرکے پڑھتا رہوں؟ نرجوکم يا مولاي أن تفيدونا، ولکم منا جزيل الشکر والمنّۃ۔(۶)
یہاں پہلا روزہ رؤیت سے ماہ یک شنبہ (اتوار) کا ہے، اس سے قبل چند ماہ مسلسل رؤیت نہیں ہوئی تھی، جمعہ کو کوشش کی گئی تھی، لیکن مطلع صاف نہ تھا، پشاور وغیرہ سے بعض خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ بعض اطرافِ سرحد میں رؤیت جمعہ کو ہوئی، اور پہلا روزہ شنبہ کا ہے، لیکن شرعی حجت ہونے کے طور پر کوئی موثوق (قابلِ اعتماد) خبر ابھی نہیں۔(۷)
                       والسلام ختام: محمد یوسف البنوري عفا اللہ عنہ
 پس نوشت: ’’تأنیب الخطیب للکوثري‘‘ وغیرہ، مصر سے پہنچ گئی ہیں، عنقریب خدمتِ اقدس میں ارسال کریں گے۔ (۸)
                                                                   والسلام

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ 

(۱)  السلام علیکم! 
(۲)  جی ہاں، الحمد للہ! 
(۳)  أوصلکم اللہ علٰی کل ما ينفعکم کما تحبونني۔
 (۴)  الخیر فیما وقع۔
(۵)  دل سے۔
(۶)  ھٰذا أسلم وأحکم۔
(۷)  عین الصواب۔
(۸)  تقبّل اللہ منکم۔

حواشی

(حاشیہ نمبر: 1) ترجمہ: ’’ کہاں ایک بے نور چراغ اور کہاں آفتاب کی ضیاء؟! دیکھیے! راہ کا یہ تفاوت کہاں سے کہاں تک ہے؟!‘‘

(حاشیہ نمبر: 2)مذکورہ خواب کی مناسبت سے یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ خواب کی تعبیر کا اس کی ظاہری صورت اور الفاظ کے موافق ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ بسااوقات خواب کی تعبیر کبھی اس کے ظاہری معانی سے مستفاد ہوکر قریب ہوتی ہے اور کبھی بالکل اس کے ظاہر کے موافق ہوتی ہے، کبھی اس کے ظاہر سے مختلف ہوتی ہے اور کبھی بالکل برعکس ہوتی،کبھی اس سے مستفاد ہوتی ہے۔کبھی خواب بظاہر خوش نما معلوم ہوتا ہے اور اس کی تعبیر پریشان کن ہوتی ہے، اور بسااوقات کبھی خواب کا ظاہر‘ وحشت انگیز ہوتا ہے، لیکن فنِ تعبیر کے ماہرین کے نزدیک اس کی تعبیر‘ مسرت انگیز ہوتی ہے۔کس خواب میں کونسی صورت مراد ہوگی؟ اس کا فیصلہ فنِ تعبیر کے ماہر کا کام ہے، اور فنِ تعبیر کسبی سے زیادہ وہبی ہے۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی چچی ام الفضل بنت الحارث  رضی اللہ عنہا  نے ایک خواب دیکھا اور انہوں نے آپ a کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! آج رات میں نے ایک برا خواب دیکھا ہے۔ آپa نے دریافت فرمایا: وہ کیا خواب ہے؟ عرض کیا: وہ بہت ہی سخت ہے۔ آپa نے فرمایا: بتائیے تو کیا خواب ہے؟ حضرت ام الفضل  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آپ کے جسمِ مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ آپ a نے فرمایا : آپ نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے،   (اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاء اللہ!     میری لختِ جگر بیٹی (حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا ) کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا، جو آپ کی گود میں کھیلے گا۔ (حضرت ام الفضل  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: یہ خواب یوں سچا ثابت ہوا کہ) حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے اور میری گود میں کھیلے۔‘‘  (مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب، باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۳، ص:۱۷۴۱، ط: المکتب الاسلامی، بیروت) 
غور کیجیے کہ مذکورہ خواب کے ظاہر کو سوچ کر خود حضرت ام الفضل  رضی اللہ عنہا  بھی اس کے ذکر کرنے میں ہچکچا رہی تھیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی کتنی عمدہ تعبیر ارشاد فرمائی۔ معلوم ہوا کہ بعض اوقات خواب کا ظاہر اور تعبیر بالکل مختلف ہوتی ہے، علمی بصیرت کے ساتھ فنِ تعبیر سے آگاہی رکھنے والے ان دقائق سے واقف ہوتے ہیں۔ بعض ظاہر بین اور کم فہم لوگ خواب کے ظاہر کو دیکھ کر اس کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں، خود بھی دانستہ یا نادانستہ الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں، اور عوام کو بھی الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواب کو خواب ہی کا درجہ دیا جانا چاہیے، اس پر حقیقت کے اصول منطبق کرنا اور حقیقت کی مانند اشکال واعتراض کا نشانہ بنانا ہماری علمی روایت کے خلاف ہے۔
(حاشیہ نمبر: 3)ترجمہ: ’’ کہاں ایک بے نور چراغ اور کہاں آفتاب کی ضیاء؟! دیکھیے! راہ کا یہ تفاوت کہاں سے کہاں تک ہے؟!‘‘

(حاشیہ نمبر: 4)ترجمہ: ’’ جو کچھ تمہارے دامن میں ہے، صفائے قلب اور درد سے پورا سامنے لاؤ۔‘‘

(حاشیہ نمبر: 5)ترجمہ: ’’ اگر مے نوش فرمارہے ہیں تو توانائی کا ایک گھونٹ خاک کی نذر بھی کردیجیے۔‘‘

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین