بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن

قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن



۱-ان مبارک ہستیوں میں سے ایک شیخ ابو عبد اللہ محمد بن عبد الرحمن بخاری حنفی ہیں جو ”الزاہد العلاء“ کے لقب سے معروف ہیں اور صاحب ہدایہ کے شیوخ کے طبقے میں شمار کئے جاتے ہیں ،۵۴۶ھ میں وفات پائی ، قرآن کریم کی ایسی تفسیر مرتب فرمائی جو ہزار سے زیادہ اجزاء پر مشتمل ہے ، شیخ قاسم بن قطلوبغا حنفی نے ”تاج التراجم“ میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔
۲-اوریہ شیخ ابو یوسف عبد السلام بن محمد القزوینی (متوفی ۴۸۳ھ ) جنہوں نے تین سومجلدات پر مشتمل تفسیر تصنیف فرمائی ،جس کا نام ”حدائق ذات بہجة“ رکھا اورصاحب ”کشف الظنون“کے ایک قول کے مطابق یہ تفسیر پانچ سوجلدوں پر مشتمل ہے۔
۳-علامہ تاج الدین سبکی کی طبقات کبریٰ سے صاحب کشف نے نقل کیا ہے کہ امام محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ نے اولاًتیس ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر تصنیف فرمائی، پھر اس تفسیر کا خلاصہ تین ہزار اوراق میں تحریر کیا، آج یہ ملخص تفسیرتیس جلدوں میں مطبوعہ حالت میں ہمارے سامنے موجود ہے،جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اصل تفسیرجس کا اختصار تیس جلدوں میں ہوا، کم از کم تین سو جلدوں پرتو ضرورمشتمل ہوگی ۔
۴-امام قاضی ابوبکر بن العربی متوفی ۴۶۸ھ نے اسی ہزار اوراق پرمحیط تفسیر لکھی جس کا انہوں نے اپنی کتاب ”القبس“ میں تذکرہ فرمایا ہے، صاحب کتاب ”الدیباج المذہب فی معرفة اعیان المذہب“ نے لکھاہے کہ بعض علماء نے یہ تفسیر سلطان ابو عنان کی لائبریری میں اسی (۸۰) مجلدات میں دیکھی ہے۔
۵-ادھر اہل مغرب کے سب سے بڑے عالم وعارف صاحب ”الفتوحات المکیة“صوفیاء کے شیخ اکبر طائی اندلسی متوفی۶۲۸ھ کو لیجئے جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر میں(۶۰) ساٹھ جلدیں تحریر فرمائیں اور ان میں وہ نصف قرآن یعنی سورہ کہف تک پہنچ سکے۔
۶-صاحب کشف الظنون سے منقول ہے کہ: شیخ جمال الدین ابو عبد اللہ حنفی مقدسی (متوفی ۶۹۸ھ) جو ”ابن النقیب“ کی کنیت سے مشہور ہیں انہوں نے تقریباً پچاس جلدوں میں تفسیر لکھی جس کا نام ”التحریر والتحبیر لأقوال ائمة التفسیر فی معانی کلام السمیع البصیر“ رکھا، امام کفوی فرماتے ہیں کہ: یہ تفسیر اسی (۸۰) مجلدات پر مشتمل تھی اوراتنی مقدار سے آگے نہ بڑھ سکی، جبکہ علامہ عبد الحئی لکھنوی ”الفوائد البہیة فی تراجم الحنفیة“ میں نقل کرتے ہیں کہ: مجیر الدین حنبلی نے اپنی کتاب ”تاریخ القدس “ میں لکھا ہے کہ: یہ تفسیر ننانوے جلدوں پر مشتمل تھی جس میں انہوں نے پچاس کے قریب تفاسیر سے استفادہ کرکے مواد جمع فرمایا تھا ۔
۷-اسی طرح شیخ ابوالقاسم اصبہانی متوفی ۵۳۵ھ نے تیس (۳۰) جلدوں میں تفسیر تالیف فرمائی۔
۸- امام شمس الدین ابو مظفر متوفی ۶۵۴ھ نے بھی تیس جلدوں پر حاوی تفسیر لکھی۔
۹- ابن الندیم کے بیان کے مطابق شیخ مفضل بن سلمہ حنفی جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے علماء میں ہوتا ہے، انہوں نے ”ضیاء القلوب فی معانی القرآن“کے نام سے تقریباً بیس جلدوں میں تفسیر لکھی ۔
۱۰-اسی طرح ابن ندیم نے ذکر کیاہے کہ: امام ابوبکر محمد بن الحسن انصاری النقاش کی بھی ایک تفسیر ہے جس کا نام ”التفسیر الکبیر“ ہے اوریہ بارہ ہزار اوراق پر مشتمل ہے۔
۱۱-صاحب ”ظہر الاسلام “صفحہ۲۰۵ پر رقمطراز ہیں کہ: ”ابوبکرادفوی جو ابو جعفر نحاس کے شاگرد ہیں انہوں نے علوم القرآن کے متعلق ایک کتاب تالیف فرمائی جو ایک سو بیس (۱۲۰) مجلدات پر مشتمل ہے ،ان کا انتقال ۳۸۸ھ میں ہوا، اور صفحہ۲۸۰ پر تحریر کرتے ہیں کہ: (انہی نے) ایک تفسیر بھی تحریر فرمائی جو سو جلدوں پر مشتمل تھی اور لکھنے والے کی عمر اور اس کے قلم کی سیاہی کو ختم کردینے والی ہے، ابن سبکتگین نے اس کی تالیف پر علماء کو مقرر فرمایا“۔
علامہ زاہدکوثری جن کا تذکرہ میں نے گذشتہ صفحات میں کیا تھا اپنے مقالات میں تحریر فرماتے ہیں ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں :
اور میں قاری سے امید کرتاہوں کہ وہ مجھے اس بات کی اجازت دے گا کہ میں علماء امت اسلامیہ کی تفسیر قرآن کی خدمت کے سلسلے میں چند مؤلفات کا تذکرہ کروں جو تصنیف وتالیف کے میدان میں ان کی انتہائی محنتوں اور کوششوں کا ایک نمونہ ہے ،چنانچہ علامہ مقریزی ”خطط“ میں ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو الحسن اشقری نے ”تفسیر المختزن “سترجلدوں میں تحریر فرمائی ، قاضی عبد الجبار ہمدانی کی تفسیر ”المحیط “ کے نام سے سو جلدوں پر مشتمل ہے ۔
شیخ ابو یوسف عبد السلام قزوینی کی تفسیر ”حدائق ذات بہجة“ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کم از کم تین سو جلدوں میں ہے ، کہتے ہیں کہ مصنف نے اپنی اس تفسیر کو بغداد میں واقع امام اعظم ابو حنیفہ کی مسجد کے لیے وقف کردیا تھا، بعد ازاں دارالخلافہ بغداد میں مغلوں کی شورش کے دوران اس کتاب کی کچھ جلدیں ضائع ہوگئیں، لیکن میں نے ہندوستان کے ایک نامور ادیب (ماہر لغت علامہ عبد العزیز میمنی) سے سنا ہے کہ انہوں نے اسی تفسیر کا کچھ حصہ کسی کتب خانے کی فہرست میں دیکھا تھا،اسی طرح حافظ ابن شاہین کی تفسیر بھی ہے جو آج کل کی ہزار جلدیں بنتی ہیں،اسی طرح قاضی ابو بکر ابن العربی کی تفسیر ”انوار الفجر “ جو اسی (۸۰) ہزار اوراق پر مشتمل ہے ،مشہور ہے کہ یہ ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے ،لیکن راقم بہت بحث وتفتیش کے بعد بھی اس کتاب کے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکا ، ابن نقیب مقدسی  جو ابوحیان کے مشائخ میں سے ہیں، ان کی بھی سو (۱۰۰) جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر ہے جن میں سے بعض جلدیں استنبول کے کتب خانے میں موجود ہیں، اور میری معلومات کے مطابق ان تفاسیر کی کچھ کچھ جلدیں مختلف کتب خانوں سے مل سکتی ہیں۔ رہی بات آج کل کی ضخیم اور مکمل تفسیر کی تو میرے علم میں ایسی تفسیر ”فتح المنان“ ہے جو ”التفسیر العلالی “ کے نام سے بھی مشہور ہے اور علامہ قطب الدین شیرازی کی طرف منسوب ہے ،یہ تفسیر چالیس جلدوں میں ہے اور اس کی پہلی جلد ”دار الکتب المصریّة“ میں موجود ہے جس سے ان کے تفسیری اسلوب کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ، استنبول کے کتب خانہ محمد اسعد اور کتب خانہ علی پاشا (حکیم اوغلی) میں اس کی مختلف جلدیں موجود ہیں ،جن سے اس تفسیر کاایک مکمل نسخہ دستیاب ہوسکتا ہے،اسی طرح ”المنہل الصافی“ میں لکھا ہے کہ علامہ محمدزاہر بخاری کی بھی تحریرکردہ ایک تفسیر ہے جو سو جلدوں پر مشتمل ہے ،ان مذکورہ تفاسیر کے علاوہ بھی علماء امت کی ان کے اپنے اپنے منہج واسلوب کے مطابق تفاسیر ہیں جن کا شمار نا ممکن ہے ۔ بڑی تفسیروں کے متعلق جومیری محدودوناقص معلومات تھی وہ سپرد قلم کردی ،رہی بات ان تفاسیر کی جو دس جلد یا اس سے کم وبیش پر مشتمل ہیں تو ایسی تفاسیر بے شمار ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں ،متقدمین ومتأخرین علمائے امت کی قرآن کریم کے اسرار ومعارف کے بیان کرنے میں یہ وہ سخت جدوجہد ہے جوانہوں نے کی اور ہر ایک برتن سے وہ کچھ نکلا جو اس میں تھا ، ہر مفسر نے اسی نقطہٴ نظر سے قرآن کریم میں غور وخوض کیا جس فن سے وہ دلی شغف اور قلبی محبت رکھتا تھا ، چنانچہ ایک محدث کا طریقہٴ کار روایات اور ان کے طرق کے متعلق بحث رہی جیسے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں کیا اور علامہ سیوطی نے ”الدر المنثور“میں ، اسی طرح دیگر کئی محدثین نے یہی اسلوب اختیار کیا۔فقیہ نے مسائل کے استنباط واستخراج کی طرف توجہ کی جیسے کہ امام قرطبی  وغیرہ۔ نحوی حضرات قرآن کریم کے اعراب ،الفاظ قرآنی کی ترکیب اور اسلوب قرآن کی نظم کے سمندر میں غوطہ زن ہواجیسے کہ ابی حیان نے اپنی تفسیر”بحر“ اور”نہر“ میں کیا۔علم بلاغت سے شغف رکھنے والے مفسر نے قرآن کریم کے اطناب وایجاز میں پوشیدہ اعجاز کو ظاہر کرنے میں اپنا شوق دکھایا ،اور قرآن کریم کے مطالع ومقاطع اوراس کے عجائب وغرائب میں موجود حسن کی وضاحت کی جیسا کہ علامہ زمخشری نے اپنی کتاب ”کشاف“اور ابو سعود نے ”ارشاد“میں یہ طریقہٴ کار اپنایا۔متکلم مفسر نے علم کلام کواپنی جولانگاہ جاناجیسے کہ امام رازی کا اپنی تفسیر ”مفاتیح“ میں یہی منہج رہا ،مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں دیگرکئی مختلف مسائل کے تحت بے شمار قیمتی جواہرات ہیں ،اسی طرح ایک منطقی مفسر کے مد نظر قیاس کی ترتیب اور رسوم وحدود کے متعلق بحث وتفتیش رہی جیسے: ابن سینا نے سورہ اخلاص کی تفسیر میں یہ اسلوب اپنایا۔ جدید فلسفی کے مطمح نظر کائنات میں پھیلی اللہ کی نشانیاں، عنصری عجائب اور طبعی غرائب کا بیان رہا ،جیسا کہ شیخ جوہری طنطاوی نے اپنی تفسیرکو فلکی ،عنصری اور طبعی عجائبات سے اتنا بھر دیا ہے کہ بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن اسی لیے نازل ہواتھا۔ خلاصہ یہ کہ ہر ایک نے اپنا تھیلا اور برتن خالی کیا اور اپنی ترکش میں بھری معلومات کو بیان کر دیا ،اور یہ معاملہ خدائے پاک کے تقدیری فیصلے کے مطابق ہے ،تاکہ سب پرواضح ہوجائے کہ اس کلام الہٰی کے عجائب و غرائب کبھی ختم نہ ہوں گے اور جو خبر، صادق ،امین ،پیغمبر محمد مصطفی انے دی ہے وہ اسی طرح سب پر عیاں ہوجائے جیسا کہ سورج آسمان کے درمیان۔اوپر جو تفسیر کے مناہج ذکر ہوئے ان میں سے بعض بعض سے اہم ہیں اور امید یہی ہے کہ بڑی تفاسیر جن کا تذکرہ ہوا ،وہ تمام اہم معلومات وفوائد کی جامع ہوں اور ان مفسرین کی بصیرت وبصارت کی جس قدر رسائی ہوگی ان تمام خصوصیات وامتیازات کی یہ بڑی تفاسیر ضرور حامل ہوں گی ،البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ بغداد کے مفتی سید محقق حنفی آلوسی کا ان کی تفسیر ”روح المعانی“ کی وجہ سے علماء کی گردنوں پر بڑا احسان ہے،اس لیے کہ یہ تفسیراہل علم کے ہاتھوں میں موجود تمام تفاسیرمیں سب سے زیادہ جامع ہے ،ان کی یہ تفسیر روایت ودرایت ،فقہ وحدیث ،فصاحت وبلاغت ،ترکیب و لغت اور کلام وتصوف غرض تمام علوم کو شامل ہونے کے اعتبار سے ایک گرانقدر تفسیر ہے، جس میں الفاظ کی ترتیب اور معانی کا نظم ونسق بھی معیاری ہے ،گویا یہ پوری تفسیر قیمتی لعل وجواہرات سے مرصع ومزین ہے ،اللہ رب العزت اس تفسیر کو موٴلف کے لیے بروز قیامت اچھا ذخیرہ فرمائے ،آمین۔ (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین