بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عقلی فنون پڑھنے کے فائدے 

عقلی فنون پڑھنے کے فائدے 


دینی تعلیم کے نصاب میں منطق، فلسفہ، اصولِ مناظرہ وغیرہ عقلی فنون اہم مقام رکھتے ہیں۔ انھیں نصاب میں کیوں رکھا گیا ہے؟ انھیں نہ پڑھنے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کس حیثیت سے اور کس حد تک پڑھنا چاہیے؟ زیرِ نظر مضمون میں یہ سب امور زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔

1- عقلی فنون ذریعہ ہیں، بذاتِ خود مقصد نہیں
 

حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ   (۱۲۸۰ - ۱۳۶۲ھ) سے سوال کیا گیا:
’’تعلم المنطق حرام أو مباح أو فرض أو واجب أم حسن؟ و إذا کان مباحا بقدر الإصطلاح فماقدرہٗ؟ وھل قراء ۃ سلم العلوم وشروحہٖ علی قدر الإصطلاح جائز أم لا؟۔‘‘
’’منطق سیکھنا حرام ہے یا مباح یا فرض یا واجب یا حسن؟ اور جب مباح ہے تو اس کی مقدار کیا ہے ؟ کیا سلم اور اس کی شروح پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟۔‘‘
’’فأجاب : العلم المنقول کالأغذیۃ مقصود، والمعقول کالأدویۃ ضروري لمن یشتغل بالکفایۃ من المنقول ولم یسلم ذھنہٗ عن الخطأ في الاستدلال بدونہٖ۔ ولما کان الضروري یتقدر بقدر الضرورۃ، وقدرہٗ مختلف باختلاف الأذھان، فبأي مقدار ترفع الضرورۃ کان الضروري ھو ذاک المقدار۔ ومن لاضرورۃ لہٗ ولاضرر کان لہٗ مباحا۔ ومن تضرر بہٖ کان لہٗ مذموما۔ وبقدر التضرر یکون الذم من الکراہۃ والحرمۃ۔‘‘
’’علمِ منقول غذا کی طرح مقصود ہے، اور علمِ معقول دوا کی طرح ذریعہ ہے، اس شخص کے لیے جو فرضِ کفایہ علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہو اور اس کا ذہن اس کے بغیر دلیل بنانے میں غلطی سے محفوظ نہ رہے، اور جب ذریعہ بقدرِ ضرورت لیا جاتا ہے اور اس کی مقدار مختلف ذہنوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے، تو جس مقدار سے ضرورت پوری ہوجائے اتنی مقدار کافی ہوگی، اور جسے کوئی ضرورت نہ ہو اور نہ کوئی نقصان ہو اس کے لیے مباح ہے، اور جسے اس سے نقصان ہو اس کے لیے برا ہے۔اور جتنا نقصان ہو اتنی ہی برائی ہوگی حرمت اور کراہت میں سے۔‘‘                           (امداد الفتاوی :۴/۷۷، مکتبہ دار العلوم کراچی،ط:۱۴۳۱ھ) 
یہ سوال اگرچہ منطق کے بارے میں تھا، لیکن باقی معقولات کا حکم بھی جواب سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی قدس سرہٗ (متوفی: ۱۳۰۲ھ) کا ارشاد ہے:
’’ہم تو جیسا بخاری کے مطالعہ میں اجر سمجھتے ہیں میرزاہد او ر امورِ عامہ میں بھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں، کیونکہ اس کا شغل بھی اللہ کے واسطے ہے اوراس کا بھی، یہ بات بڑی قوت سے فرمائی اور واقعی موٹی بات ہے۔ دیکھیے! باغ کی رونق کے لیے جیسا کہ پھلوں کے درخت لگانا مقبولِ خدمت ہے، ویسے ہی یہ بھی مقبولِ خدمت ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے کانٹے جمع کرکے باغ کے چاروں طرف باڑھ لگادے، تا کہ جانور آآ کر اس کو ویران نہ کردیں۔ بس فلسفہ ومعقولات کی یہی مثال ہے کہ وہ کانٹوں کی باڑھ ہے۔ اور یہ خدمت بھی اس اصل خدمت کے ساتھ ملحق ہے۔‘‘   (ملفوظاتِ حکیم الامت: ۱۰/۷۷،۷۸، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان، ط:۱۴۲۹ھ) 
پس واضح ہوا کہ عقلی فنون کو اسی درجے میں رکھنا چاہیے جس درجے میں صرف،نحو،بلاغت وغیرہ ادبی فنون کو رکھا جاتا ہے، جیسے وہ ذریعہ ہیں ایسے ہی یہ بھی ذریعہ ہیں۔ مقصد دونوں کا دینی علوم: تفسیر، حدیث او ر فقہ کی خدمت ہے، اور سلف صالحین کو جیسے ادب وبلاغت پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی، ایسے ہی عقلی فنون حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی، ان کی طبیعت کی سلامتی اور سلیقہ ان چیزوں سے کافی تھا۔
امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی :۵۰۵ھ) نے اصولِ فقہ پر اپنی کتاب کے مقدمے میں مبادیِ منطقیہ ذکر فرمائے ہیں، ان کے شروع میں فرماتے ہیں:
’’ولیست ھٰذہ المقدمۃ من جملۃ علم الأصول ولا من مقدماتہ الخاصۃ بہٖ، بل ھي مقدمۃ العلوم کلھا، ومن لایحیط بھا فلاثقۃ لہٗ بعلومہٖ أصلا۔‘‘ (المستصفیٰ، ص:۱۰، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ط:۱۴۱۳ھ/۱۹۹۳ء)
’’اور یہ مقدمہ (صرف) علم اصولِ (فقہ) کا حصہ نہیں، اور نہ ہی اس کے خاص مقدمات کا حصہ ہے، بلکہ یہ سب علوم کا مقدمہ ہے، اور جو اس پر عبور نہ رکھتا ہو اسے اپنے علوم پر بالکل بھروسہ نہ کرنا چاہیے۔‘‘
شاطبی رحمہ اللہ (متوفی: ۷۹۰ھ) کہتے ہیں:
’’وکذٰلک أصول الدین وھو علم الکلام إنما حاصلہٗ تقریر لأدلۃ القرآن والسنۃ أو ماینشأ عنھا في التوحید وما یتعلق بہٖ کما کان الفقہ تقریرا لأدلتھا في الفروع العملیۃ۔‘‘  (الاعتصام:۱/۴۴، مکتبۃ التوحید، سنہ ندارد)
’’اور اسی طرح اصول الدین اور وہ علم کلام ہے، اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ قرآن وسنت کے توحیدوغیرہ کے دلائل کی پوری تفصیل کی جائے، جیسے فقہ قرآن وسنت کے فروعِ عملیہ سے متعلق دلائل کی پوری تفصیل ہے۔ ‘‘

2 - معقولات کا اثر دوسرے علوم پر

جب کبھی حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۹۶ھ) کے سامنے یہ تجویز پیش ہوتی کہ معقولات کو درسِ نظامی سے نکال دیا جائے تو حضرت اس کی سخت مخالفت فرماتے تھے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور عقائد پر لکھی ہوئی متقدمین کی کتابیں معقولات کی اصطلاحوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر قدیم منطق وفلسفہ کو بالکل دیس نکالا دیا جائے تو اسلاف کی ان کتابوں سے خاطر خواہ استفادے کی راہ مسدود ہوجاتی ہے جو ہمارا گراں قدر علمی سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ منطق وفلسفے کی تعلیم سے ذہن کو جِلا ملتی ہے اور ذہن مسائل کو مرتب طریقے سے سوچنے کا عادی ہوجاتا ہے۔اور اس طر ح یہ علوم: تفسیر، حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ کے مسائل سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ (البلاغ مفتی اعظمؒ نمبر:۱/۳۵۸،مکتبہ دار العلوم کراچی،ط:۱۴۲۶ھ) نیز دیکھیے: آداب البحث والمناظرۃ، محمد امین قیطی سلفیؒ (متوفی: ۱۳۹۳ھ) اس میں مؤلف نے دو فنون جمع کیے ہیں:منطق اور اصولِ مناظرہ۔
اصولِ مناظرہ بھی ایک ضروری فن ہے۔ مباحثہ اصول وضوابط کا پابند ہوتو نتیجہ خیز ہوتا ہے، ورنہ نرا شور شرابا۔ اس کی اصطلاحات دوسرے علوم وفنون میں بھی بکثرت استعمال ہوتی ہیں۔ یہ پہلے نصاب میں داخل تھا، اب کچھ عرصے سے معلوم نہیں کیوں نکال دیا گیا؟ حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے تو دینی تعلیم کے مختصر نصاب ’’ضمان التکمیل في زمان التعجیل‘‘ میں بھی اصولِ مناظرہ کا ایک متن شامل رکھا ہے۔ علمِ اصولِ مناظرہ دراصل اصولِ فقہ کی بحث دفع القیاس سے کچھ ترمیم کے ساتھ ماخوذ ہے۔ (دیکھیے:نور الانوار، ص۲۴۹، ایچ ایم سعید، کراچی، سنہ ندارد) اس لیے طلبہ کو کم از کم شریفیہ کا متن تو ضرور پڑھا دینا چاہیے۔ 

3 - جسے معقولات سے مناسبت نہ ہو اسے یہ نہ پڑھائے جائیں
 

حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: میرے پاس اکثر طلبہ کے خطوط آتے ہیں کہ منطق سمجھ نہیں آتی، کوئی دعا لکھ دیجیے، میں لکھ دیتا ہوں کہ منطق پڑھنا چھوڑدو، یہی دعا ہے: ’’ إذا لم تستطع شیئًا فدعہ۔‘‘ (جب تمہیں کسی کام کی طاقت نہ ہوتو اسے چھوڑ دو)آج کل بعض طبائع کو معقول سے مناسبت نہیں، سو ایسوں کو معقول نہ پڑھائیںاور صرف دینیات کے بعد تکمیل کی سند دے دیں۔ کانپور میں بعض طلبہ محض دینیات پڑھتے تھے، معقولات نہیں پڑھتے تھے تو ان کو پہلے سند نہیں ملتی تھی۔ میںنے کہا: افسوس عالمِ دینیات کو سند نہ ملے اور معقولات نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ناقص سمجھا جائے، اسی وجہ سے میں نے دو قسم کی سندیں تیار کرائی تھیں، اور ایک میں لکھ دیا تھا:’’ فارغ عن الدرسیات‘‘،دوسری میں’’ فارغ عن الدینیات‘‘اور جس کو منطق سے مناسبت نہ ہو اس کو بعض ایسی کتبِ دینیہ جیسے توضیح تلویح،مسلم الثبوت جن میں منطقی اصطلاحیں استعمال کی ہیں، ان کا پڑھنا بھی ضروری نہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت: ۲۹/۳۹۰،ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، ط:۱۴۲۵ھ) ان میں سے ایک سند کا عنوان : ’’سند البلاغ إلٰی کمال الفراغ من الدینیات‘‘ تھا۔ اور دوسری کا عنوان: ’’سند البلاغ إلٰی کمال الفراغ من الدرسیات‘‘ تھا۔ (دیکھیے: اشرف السوانح: ۱/۹۰ - ۹۳، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان، ط:۱۴۲۷ھ)

4  - معقولات کی مذمت کے اقوال کے معانی 

بعض شافعی علماء سے منطق کے اوراق سے استنجاء کرنے کا قول منقول ہے، فقہ شافعی کی معتبر کتاب ’’تحفۃ المحتاج‘‘ سے اس کی مراد دیکھیے:
’’(علم محترم کمنطق وطب خلیا عن محذور کالموجودین الیوم، لأن تعلمھما فرض کفایۃ لعموم نفعھما) (قولہ: لأن تعلمھما الخ) قال في الإمداد: بل ھو أي المنطق أعلاھا أي العلوم الآلیۃ۔ وإفتاء النووي کابن الصلاح بجواز الاستنجاء بہٖ یحمل علی ماکان في زمنھما من خلط کثیر من کتبہٖ بالقوانین الفلسفیۃ المنابذۃ للشرائع، بخلاف الموجود الیوم، فانہٗ لیس فیہ شيء من ذٰلک ولا ممایؤدي إلیہ فکان محترما، بل فرض کفایۃ، بل فرض عین إن وقعت شبھۃ لایتخلص منھا إلا بمعرفتہٖ۔ انتھٰی۔‘‘
’’بلکہ علمِ منطق علومِ آلیہ میں سے سب سے بڑے درجے کا ہے۔ اور نووی اور ابن صلاح کا یہ فتویٰ کہ منطق (کے اوراق) سے استنجا ء کرنا درست ہے، اس سے مراد وہ منطق ہے جو ان کے زمانے میں تھی،جس میں خلافِ شرع بہت سے فلسفی قوانین ملے ہوئے تھے، برخلاف موجودہ منطق کے، کیونکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں، تو یہ قابلِ احترام ہے،بلکہ فرضِ کفایہ ہے، بلکہ فرضِ عین ہے، اگر کوئی ایسا شبہ پیش آیا جس سے منطق جانے بغیر نہ نکل سکے۔‘‘(تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج وحواشی الشروانی والعبادی: ۱/۱۷۸،المکتبۃ التجاریۃ، مصر، ط: ۱۳۵۷ھ- ۱۹۸۳ء، نیز دیکھیے: رد المحتار :۱/۴۵، دار الفکر، بیروت، ط:۱۴۱۲ھ-۱۹۹۲ء، جامع الرموز مع غواص البحرین:۳/۶۷۴، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ط:۲۰۱۸ء)
علمِ کلام کی مذمت کے اقوال بھی سلف سے منقول ہیں، جیسے مثلاً امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی: ۱۸۲ھ) فرماتے ہیں: ’’من طلب الدین بالکلام تزندق‘‘’’جو دین کو علم کلام سے طلب کرے وہ زندیق ہے۔‘‘
اسی طرح اور ائمہ سے بھی مذمت کے اقوال منقول ہیں۔ ابن عساکر  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی۵۷۱ھ )  فرماتے ہیں: 
’’وفي کل ذٰلک دلالۃ علی أن استحباب من استحب من أئمتنا ترک الخوض في الکلام إنما ھو للمعنی الذي أشرنا ٖلیہ وأن الکلام المذموم إنما ھو کلام أھل البدع الذي یخالف الکتاب والسنۃ۔ فأما الکلام الذي یوافق الکتاب والسنۃ ویبین بالعقل والعبرۃ، فإنہٗ محمود مرغوب فیہ عند الحاجۃ تکلم فیہ الشافعي وغیرہٗ من ائمتنا رضي اللہ عنہم عند الحاجۃ کما سبق ذکرنا لہ۔‘‘     (تبیین کذب المفتری فیما نسب الی الأشعری :ص۳۵۱،دار الکتاب العربی، بیروت،ط:۱۴۰۴ھ)
’’ان سب واقعات میں اس کی دلیل ہے کہ ہمارے جن ائمہ نے (علم)کلام میں مشغول ہونے کو پسند نہیں کیا، اس کی وجہ وہ تھی جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا، اور یہ کہ کلامِ مذموم صرف وہ ہے جو اہلِ بدعت کا ہے جو کتاب وسنت کے مخالف ہے، اور جو علمِ کلام کتاب وسنت کے موافق ہو اور عقل سے وضاحت کرے و ہ بوقتِ ضرورت پسندیدہ ہے، اس میں ہمارے ائمہ شافعی وغیرہ نے حصہ لیا ہے۔‘‘
امام بیہقی  ؒ(متوفیٰ: ۴۵۸ھ) نے بھی امام شافعی  ؒ(متوفی: ۲۰۴ھ) کے مذمت کے قول کی یہی مراد بیان کی ہے۔ (نیز دیکھیے: تبیین کذب المفتری، ص:۳۳۴ -۳۵۲۔ اشارات المرام، ص:۱۱۷ - ۱۲۶، زمزم، کراچی، ط:۱۴۴۲ھ/۲۰۲۱ء)
اس سے واضح ہوا کہ علمِ کلام کی مذمت میں منقول سلف کے اقوال اپنے ظاہر اور اطلاق پر نہیں، لہٰذا ان اقوال سے عموم مراد لے کر اہلِ سنت والجماعت کے متکلمین کی علی الاطلاق مذمت کرنااور انھیں گمراہ قرار دینا خود گمراہی میں پڑنا ہے۔ شرح عقائدِ نسفیہ کے خطبے میں تفتازانی  ؒ(متوفی: ۷۹۲ھ) نے بھی ان اقوال کے کچھ معانی ذکر کیے ہیں۔ (دیکھیے: شرح عقائدِ نسفیہ، ص:۸، مکتبہ امدادیہ، ملتان، ط:سنہ ندارد)

5 - علمِ کلام کی تدوین کا تاریخی پس منظر 

علمِ کلام کی تدوین کی ضرورت اور تاریخی پس منظر کو اگر دیکھا جائے تو اس سے بھی ائمہ کے مذمت کے اقوال کی مراد سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ (متوفی: ۱۴۲۰ھ)لکھتے ہیں :
’’(عباسی خلیفہ )معتصم باللہ ( ۱۷۹ - ۲۲۷ھ) اور واثق باللہ (۲۰۰ - ۲۳۲ھ) کے انتقال پر (جو مذہبِ اعتزال اور معتزلہ کے سر پرست تھے) معتزلہ کا زور ٹوٹ گیا۔ واثق کا جانشین خلیفہ متوکل علی اللہ (۲۰۵ - ۲۴۷ھ) مذہبِ اعتزال سے بیزار اور معتزلہ کا دشمن تھا۔ اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر معتزلہ کی عظمت واقتدار کے نشانات مٹائے اور ان کو حکومت سے بالکل بے دخل کردیا، لیکن علمی حلقوں میں ابھی معتزلہ کا اثر باقی تھا۔ خلقِ قرآن کا عقیدہ تو اپنی طاقت کھو چکا تھا، لیکن ان کے دوسرے مباحث اور مسائل ابھی تازہ اور زندہ تھے۔ معتزلہ نے اپنی ذہانت، علمی قابلیت اور اپنی بعض نمایاں شخصیتوں کی وجہ سے اپنا علمی وقار قائم کرلیا تھا۔ اور قضا وافتاء اور حکومت کے اندر بعض اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ تیسری صدی کے وسط میں ان کا خاصا دور دورہ ہوگیا۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ معتزلہ دقیق النظر، وسیع الفکر اور محقق ہوتے ہیں۔ اور ان کی آراء و تحقیقات عقل سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ بہت سے نوجوان طالب علم اور شہرت پسند اعتزال کو فیشن کے طور پر اختیار کرتے۔
امام احمد بن حنبلؒ(۱۶۴ - ۲۴۱ھ) کے بعد حنابلہ میں کوئی طاقتور علمی اور دینی شخصیت نہیں پیدا ہوئی۔ محدثین اور ان کے ہم مسلک علماء نے علومِ عقلیہ اور نئے طریقہ بحث ونظر کی طرف (جس کا معتزلہ اور فلاسفہ کے اثر سے رواج چل پڑا تھا)،توجہ نہیں کی۔ نتیجہ یہ تھا کہ مباحثہ کی مجلسوں اور درس کے حلقوں میں محدثین کی یہ علمی کمزوری اور فلسفہ کے مبادی سے بے خبری محسوس کی جاتی تھی۔اس کے مقابلہ میں علمی مباحثوں میں معتزلہ کا پلڑا بھاری رہتا، اورجو لوگ دین کا گہرا علم نہیں رکھتے تھے اور اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ سطحی ذہانت معتزلہ کی تائید کرتی ہے،اورپختہ اور گہری ذہانت بالآخر محدثین ہی کے مسلک اور محکماتِ شریعت کو قبول کرتی ہے،وہ معتزلہ کی حسنِ تقریر، حاضر جوابی اور علمی موشگافی سے متأثر ہوتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ظاہرِ شریعت اور مسلکِ سلف کی علمی بے توقیری اور اس کی طرف سے بے اعتمادی پیدا ہورہی تھی۔ خود محدثین اور اُن کے تلامذہ کے گروہ کے بہت سے لوگ احساسِ کہتری کا شکار تھے، اور معتزلہ کی عقلیت اور تفلسف سے مرعوب ہور ہے تھے۔ یہ صورت حال دینی وقار اور سنت کے اقتدار کے لیے سخت خطرناک تھی۔ قرآن مجید کی تفسیر اور عقائدِ اسلام ان فلسفی نما مناظرین کے لیے بازیچۂ اطفال بنے جارہے تھے۔ مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اور سطحی فلسفیت مقبول ہورہی تھی۔ یہ محض ایک ذہنی ورزش تھی، اور اصطلاحات کی معرکہ آرائی، اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے نہ تو محدثین وحنابلہ کی دینی غیرت اور جوش کافی تھا، نہ عابدوں وزاہدوں کا زہد وعبادت،اورنہ فقہاء کے فتاویٰ اور جزئیات ومسائل پر ان کا عبور واستحضار۔ (اور ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں ضروری تھا کہ معتزلہ سے ان کی زبان اور اصطلاح میں بات کرکے انھیں بند کیا جاتا، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا،اس پس منظر کو ذہن میں رکھاجائے تو علمِ کلام کی علی الاطلاق مذمت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔)
اس کے لیے ایک ایسی شخصیت درکارتھی جس کی دماغی صلاحیتیں معتزلہ سے کہیں بلند ہوں،جو عقلیت کے کوچے سے نہ صرف واقف بلکہ عرصہ تک اس کا رہ نورد رہ چکا ہو،جس کی بلند شخصیت اور مجتہدانہ دماغ کے سامنے اس زمانہ کی عقلیت اور فلسفہ کے علمبردار مبتدی طالب علم معلوم ہوتے ہوںاور ایسے پست وحقیر نظر آتے ہوں، جیسے کسی دیوقامت انسان کے سامنے پستہ قد انسان اور نوعمر بچے، اسلام کو فوری طور پر ایک ایسے امام اہلِ سنت کی ضرورت تھی، اورشیخ ابوالحسن اشعریؒ (۲۶۰ - ۳۲۴ھ) کی ذات میں اس کو وہ شخصیت مل گئی۔‘‘                    (تاریخِ دعوت وعزیمت:۱/۱۰۳-۱۰۴، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی، سنہ ندار د) 
’’امام ابوالحسن اشعریؒ نے معتزلہ اور محدثین کے درمیان ایک معتدل اورمتوسط مسلک اختیار کیا، و ہ نہ تو معتزلہ کی طرح عقل کی غیر محدود طاقت اور فرمانروائی کے قائل تھے کہ وہ الٰہیات کے بارے میں اور مابعد الطبیعیات میں بھی بے تکلف عمل کرسکے، اور اس کے جزئیات وتفصیلات اور ذات و صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرسکے اور اس کو معیار قرار دیا جاسکے، نہ وہ بعض پرجوش محدثین وغالی حنابلہ کی طرح دین کی نصرت اور عقائدِ اسلامیہ کی حفاظت کے لیے عقل کا انکار اور اس کی تحقیر ضروری سمجھتے تھے، اور ان کلامی و اعتقادی مباحث جو زمانہ کے اثرات سے شروع ہوگئے تھے، احتیاط وسکوت واجب سمجھتے تھے، وہ معتزلہ اورفلسفہ زدہ علماء سے ان کی اصطلاحات اور علمی زبان میں گفتگو کرتے تھے، جس سے مذہب و عقائدِ اہلِ سنت کا وقار اور وزن بڑھتا تھا۔‘‘ (مصدرِ سابق :۱/۱۰۸)
’’ ان (امام ابوالحسن اشعریؒ) کا اصلی کارنامہ اس مسلکِ سنت اور عقیدۂ سلف کے ساتھ موافقت اور اس کی اجمالی تائید نہیں، یہ تو محدثین اور عام حنابلہ کر ہی رہے تھے، ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب وسنت کے ان حقائق اور اہلِ سنت کے ان عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا، اور معتزلہ اور دوسرے فرقوں سے ان کے ایک ایک مسئلہ اور ایک ایک عقیدہ میں انہی کی زبان اور اصطلاحات میں بحث کرکے عقائدِ اہلِ سنت کی صداقت اور ان کا منقول و معقول کے مطابق ہونا واضح کیا۔ دین کی (اس) اہم خدمت کی تکمیل اور وقت کے اس عظیم الشان فریضہ کے ادا کرنے میں وہ معتزلہ اور منحرف فرقوں کے معتوب بنے اور ایسا ہونا بالکل قدرتی تھا، لیکن وہ ان متشدد محدثین اور جامد حنابلہ کے اعتراضات کا ہدف بھی بن گئے، جن کے نزدیک ان مباحث میں حصہ لینا اور فلسفہ کی اصطلاحات کا استعمال کرنا اور نقلی مباحث ومسائل میں عقلی استدلال سے کام لینا ہی ایک زیغ وضلال کی بات تھی۔‘‘ (مصدرِ سابق: ۱/۱۱۰-۱۱۱۔ نیز دیکھیے: الملل والنحل للشہرستانی :۱/۳۱، مؤسسۃ الحلبی)
شیخ ابن تیمیہؒ (متوفی: ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:
’’فإن أحمد لم ینہ عن نظر في دلیل عقلي صحیح یفضي إلٰی مطلوب، بل في کلامہٖ في أصول الدین في الرد علی الجھمیۃ وغیرھم من الاحتجاج بالأدلۃ العقلیۃ علٰی فساد قول المخالفین للسنۃ ما ھو معروف في کتبہٖ وعند أصحابہٖ۔ ولٰکن أحمد ذم من الکلام البدعي ما ذمہٗ سائر الأمۃ، وھو الکلام المخالف للکتاب والسنۃ والکلام في اللہ ودینہٖ بغیرعلم۔‘‘(درء تعارض العقل والنقل :۷/۱۵۳-۱۵۴، جامعۃ محمد بن سعود، ط:ثالثہ، ۱۴۱۱ھ-۱۹۹۱ء)
’’ امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے مطلوب تک پہنچانے والی صحیح دلیل عقلی میں غور کرنے سے نہیں روکا، بلکہ جہمیہ وغیرہ کے رد میں اصولِ دین پر ان کے کلام میں دلائلِ عقلیہ سے سنت کے مخالفین کے قول کا فساد ثابت کیا گیا ہے، جو کہ ان کی کتابوں اور ان کے تلامذہ کے ہا ں معروف ہے، لیکن امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کلامِ بدعی کی مذمت کی ہے جس کی سب نے مذمت کی ہے، اور وہ کتاب وسنت کے مخالف کلام ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے دین میں بغیرعلم کے کلام ہے۔‘‘
اور فرماتے ہیں:
’’الأشعریۃ فیما یثبتونہٗ من السنۃ فرع علی الحنبلیۃ، کما أن متکلمۃ الحنبلیۃ فیما یحتجون بہٖ من القیاس العقلي فرع علیھم، و إنما وقعت الفرقۃ بسبب فتنۃ القشیري۔‘‘   (مجموع الفتاویٰ :۶/۵۳، مجمع الملک فہد، ط:۱۴۲۵ھ)
’’اَشاعرہ سنت کو ثابت کرتے ہیں تو حنابلہ کی مدد سے، جیسے حنابلہ کے متکلمین قیاسِ عقلی سے دلیل لیتے ہیں تو اشاعرہ کی مدد سے، جدائی بس فتنہ قشیری کے سبب ہوئی، (ورنہ حنابلہ اور اشاعرہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں)۔‘‘
اور فرماتے ہیں:
’’ولھٰذا اصطلحت الحنبلیۃ والأشعریۃ واتفق الناس کلھم ۔۔۔۔۔ وصار الفقھاء من الشافعیۃ وغیرھم یقولون الحمد للہ علی اتفاق کلمۃ المسلمین۔‘‘ (ایضاً: ۳/۲۶۹) 
’’اسی وجہ سے حنابلہ اور اشاعرہ میں صلح ہوگئی اور سب لوگ اِکٹھے ہوگئے ۔۔۔۔ اور فقہائے شافعیہ وغیرہ کہنے لگے: مسلمانوں کے اتفاق پر اللہ کا شکر ہے۔‘‘
اس سے واضح ہوا کہ ہمارے زمانے میں اشاعرہ اور حنابلہ میں جو آتشِ جنگ دوبارہ بھڑکائی جارہی ہے، یہ اسلام اور اہلِ اسلام کی کوئی خدمت نہیں!۔‘‘ (نیز دیکھیے: تبیین کذب المفتري فیما نسب الی الاشعري، ص:۱۶۳)
حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’آج کل بعض لوگو ں کو علمِ کلام جدید کی تدوین کا خبط ہورہا ہے، بس اس خیال سے اس کو جدید کہہ لو کہ تمہارے شبہات جدید ہیں، ورنہ علمِ کلامِ قدیم کے قواعدِ قیامت تک کے شبہات کا جواب دینے کے لیے کافی ہیں، چنانچہ میر ا ایک رسالہ ہے: ’’الانتباہات (المفیدۃ)‘‘ وہ تمام شبہاتِ جدیدہ کے ازالہ کا کفیل ہے۔ ذرا کوئی اس کے اصول کو توڑ تو دے، ان شاء اللہ! قیامت تک کوئی نہ توڑ سکے گا۔وہ رسالہ علم کلام قدیم ہی کے قواعد سے لے کر لکھا گیا ہے، پس علمِ کلامِ جدید کا خیال محض خبط ہے۔ متقدمین کے اصول سب شبہات کے دفع کے لیے کافی ہیں۔‘‘              (خطباتِ حکیم الامت:۲۳/۱۱۹-۱۲۰، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان، ط:۱۴۲۸ھ) 
الانتباہات المفیدۃ کا انگریزی میں بھی ترجمہ طبع ہوچکا ہے۔ پروفیسر محمد حسن عسکری اور پروفیسر کرار حسین نے کیا ہے۔ اس کا نام ہے :  Answer to Modernism۔ انٹر نیٹ آرکائیوسے فری ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ 

6 - فنِ دانش مندی 

معقولات کے ساتھ ایک اور چیز کا تعلق ہے: وہ ہے فنِ دانش مندی۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی: ۱۱۷۶ھ) نے اس پر دانش مندی کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے، اس میں فرماتے ہیں: ’’اگر تم یہ پوچھو کہ دانش مندی سے میں کیا مراد لیتا ہوں؟ تو دانش مندی سے میری مراد کتاب دانی ہے، اور اس کے تین درجے ہیں۔‘‘ اس رسالے میں حضرت نے فنِ دانش مندی میں امام ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ  تک اپنی سند کا بھی ذکر کیا ہے، اور کل ۱۵؍اصول ذکر کیے ہیں جن سے طالب علم کو کتاب صحیح طرح سمجھنے اور تحقیق کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے، اور فرمایا ہے کہ علمِ کلام اور اصولِ(فقہ) بھی اس فن سے مخلوط ہیں، اصل رسالہ فارسی میں ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ماہنامہ فکر ونظر اسلام آباد میں شائع ہوا ہے، اور انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔ اصل رسالہ شاہ رفیع الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی۱۲۳۳ھ) کے رسالے تکمیل الأذہان کے ساتھ ادارہ نشرواشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے مطبوع ہے۔(نیز دیکھیے: نظامِ تعلیم وتربیت :۱/۱۸۷،مولانا مناظر احسن گیلانی،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ط:اول) 

7 - معقولات نہ پڑھنے کا نتیجہ

حضرت مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ اپنے سفرنامے میں فرماتے ہیں: ’’اگلے دن مغرب کے بعد شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے مدرسے میں شیخ عبد الکریم المدرس کی زیارت نصیب ہوئی۔ انھوں نے عصری جامعات کے ڈگری زدہ طریقے کے بجائے قدیم طریقے پر ماہر اساتذہ وشیوخ سے علومِ دینیہ کی تکمیل فرمائی ہے۔ ماجستیر اور دکتوراہ کے اس دور میںایسے علماء کی قدر وقیمت پہچاننے والے بہت کم ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ علمِ دین کی جو خوشبو اور شریعت وسنت کی جو مہک ان بوریہ نشینوں کے پاس محسوس ہوتی ہے وہ عموماً یونیورسٹیوں کی عالیشان عمارتوں اور ان کے پرتکلف ماحول میں نظر نہیں آتی،اس لیے جہاں جانا ہوتا ہے ایسے علماء کی تلاش رہتی ہے۔ شیخ یہ سن کر بہت مسرور ہوئے کہ ناچیز کو انہی پرانے طرز کے دینی مدارس اور ان کے علماء سے خادمانہ نسبت ہے، چنانچہ ابتدائی سلام کلام کے بعد ان کا پہلا سوال ہمارے مدارس کے نصاب ونظام سے متعلق تھا۔ اور جب میں نے اپنی درسی کتب میں کافیہ، شرح جامی، شرح تہذیب، نورالانوار اور توضیح جیسی کتب کا نام لیا تو وہ تقریباً چیخ پڑے، اور وصیت فرمائی کہ اس قسم کی ٹھوس استعداد پیدا کرنے والے نظامِ تعلیم کو آپ کبھی نہ چھوڑیے، کیوں کہ ہم اس نظام کو چھوڑنے کے نتائجِ بد اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘              (جہانِ دیدہ، ص:۲۲-۲۳، ملخصاً بلفظہ، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ط:۱۴۳۱ھ) 
ان کتب میں شرح تہذیب تو خاص فن منطق میں ہے۔ نورالانوار اور توضیح اصول فقہ میں ہیں اور منطق اصولِ فقہ کے مبادی میں سے ہے، اور کافیہ اور شرح جامی بھی معقولی اسلوب اور منہج میں ہیں۔ 
برہانِ تمانع میں کسی خراسانی کا ایک رسالہ ہے، اس نے ملازمہ عادیہ اور ملازمہ عقلیہ میں فرق نہیں کیا اور اپنے سارے کلام کی بنیاد اسی پر رکھی ہے، خود بھی غلطی میں پڑا ور دوسروں کو بھی غلطی میں ڈالا، اور اس کا خیال یہ ہے کہ وہ سعد الدین (تفتازانی جیسے ماہرین فن) کو غلط قرار دینے میں حق بجانب ہے!!۔ (کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون: ۲/۱۱۴۵، مکتبۃ المثنی، بغداد، ط:۱۹۴۱ء)
تاہم یہ بات واضح ہے کہ عقلی فنون کو غور سے سمجھ کر پڑھنے سے ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، اس کے لیے مستقل طور پر ذہنی ورزش کی ضرورت ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شروح وحواشی کا گہری نظر سے لگاتار مطالعہ کرکے وہ انداز اپنے اندر جذب کیا جائے۔ امتحان کے قریب سرسری طور پر کچھ یاد کرکے امتحان میں نمبر لے لینا کافی نہیں، اور امتحان بھی ایسا ہونا چاہیے جس میں طلبہ کے حافظے اور کتابت کے بجائے صلاحیت اور استعداد کی جانچ ہو۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین