بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے !


حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے !

قرآن کریم (سورۃ المائدہ، آیت: ۸۹) واحادیثِ شریفہ کی روشنی میں قسم کھانے سے متعلق چند ضروری واہم مسائل پیش خدمت ہیں :
 اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، مثلاً تیری قسم یا تیرے سر کی قسم۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص قسم کھانا ہی چاہے تواسے چاہیے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام ہی کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔‘‘ (بخاری ومسلم) 
نیز حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی، گویا اس نے کفر وشرک کیا۔‘‘ (ترمذی، ابوداود) 
لہٰذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔ آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کو یمینِ منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے، مثلاً کسی شخص نے قسم کھائی کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا، پھر وہ کام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے۔ قسم کا کفارہ یہ ہے: دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروںمیں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔ ہاں! اگر کسی شخص نے کسی غلط کام کی قسم کھائی تو ایسی قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں، بلکہ توڑنا ضروری ہے اور اس کا کفارہ ادا کردے۔
اگر کسی گزشتہ واقعہ کو اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے اور حقیقت میں وہ غلط ہو، مثلاً کسی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص آگیا ہے، اس پر اعتماد کرکے اس نے قسم کھالی، پھر معلوم ہوا کہ وہ نہیں آیا ہے، اسی طرح بلا قصد زبان سے قسم کے الفاظ نکل جائیں، جیسے : لا واللہ، بلٰی واللہ، قسم خدا کی، اس طرح کی قسم کھانے کو یمینِ لغو کہا جاتا ہے، ایسی قسم کھانا بڑا گناہ تو نہیں ہے، البتہ آدابِ گفتگو کے خلاف ہے، لہٰذا اس طرح کی قسم کھانے سے بھی حتی الامکان بچنا چاہیے۔

جھوٹی قسم کھانا گناہِ کبیرہ ہے

جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شرک، والدین کی نافرمانی اور کسی کا ناحق قتل کرنے کی طرح جھوٹی قسم کھانے کو بھی بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ (صحیح بخاری) مثلاً کسی شخص نے کوئی کام کرلیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے، اور پھر جان بوجھ کر قسم کھالے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا، اس طرح کی جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے اور دنیا وآخرت میں وبال کا سبب ہے۔ ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔ اگر یہ جھوٹی قسم قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کرکھائی جائے تو اس کاگناہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ جھوٹی قسم انسان کو گناہ اور وبال میں غرق کردینے والی ہے، اس لیے اس قسم کو یمینِ غموس کہا جاتا ہے۔ یمین کے معنی قسم اور غموس کے معنی ڈبو دینے والے کے ہیں، یعنی وہ قسم جو انسان کو ہلاک کرنے والی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ تو نہیں ہے، لیکن گناہِ کبیرہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے معافی اور توبہ واستغفار ضروری ہے، البتہ حضرت امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا ہے کہ جھوٹی قسم پر توبہ واستغفار کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔
اگر کسی شخص نے جھوٹی قسم کھالی، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرتا ہے اور اللہ کے سامنے اپنے کیے ہوئے گناہ پر نادم بھی ہے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی کرتا ہے تو اس کی آخرت میں کوئی پکڑ نہیں ہوگی، ان شاء اللہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یہاں تک کہ شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے وہ بھی دنیا میں معافی مانگنے پر معاف کردیا جاتا ہے۔ سورۃ الزمر آیت نمبر: ۵۳ میں فرمانِ الٰہی ہے: 
’’کہہ دو کہ : ا ے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے (یعنی گناہ کر رکھے ہیں) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ یقین جانو! اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ 
اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر: ۴۸  میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
’’بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ ‘‘
آخرت میں اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرے گا یا نہیں، ہمیں معلوم نہیں، لہٰذا ہمیں دنیا میں رہ کر تمام گناہوں سے بچنا چاہیے کہ نہ معلوم کونسا گناہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے۔ جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا یقیناً گناہِ کبیرہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص صرف اور صرف دو فریقوں کو جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جھوٹی قسم کھاتاہے اور پھر اللہ سے معافی بھی مانگتا ہے تو اس کی آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی، ان شاء اللہ۔ 

خلاصۂ کلام

ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے چار بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے، یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروںمیں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین