بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ کتاب سے نکاح اور اس کے اثرات و احکامات


اہلِ کتاب سے نکاح اور اس کے اثرات و احکامات


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
گزارش عرض ہے کہ میں ایم فل کی سطح پر علومِ اسلامیہ کا مقالہ لکھ رہی ہوں، مقالے کا عنوان ہے: ’’اہلِ کتاب سے نکاح اور اس کے اثرات‘‘
آپ حضرات اس بارے میں شرعی رہنمائی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔ آپ کی عین نوازش ہوگی۔
1- اہلِ کتاب عورت سے شادی کی صورت میں نکاح کس مذہب کے مطابق پڑھایا جائے گا؟
2- مسلمان مرد اہلِ کتاب کے چرچ میں جاکر نکاح کرتا ہے تو کیا یہ شادی جائز سمجھی جائے گی؟
3 -اہلِ کتاب بیوی پر غسل و طہارت کے بارے میں کیا احکامات لاگو ہوں گے؟
4 - اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام عیسائیوں کے نام پر رکھنا کیسا ہے؟
5 - کیا مسلمان مرد اپنی اہلِ کتاب بیوی کو سور کھانے اور شراب پینے سے منع کرسکتا ہے؟
6 -اگر اہلِ کتاب بیوی سور اور شراب کا استعمال اپنے مسلمان شوہر کے سامنے کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
7 - مسلمان مرد اپنی اہلِ کتاب بیوی کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھا سکتا ہے؟
8 - مسلمان بچے اپنی اہلِ کتاب ماں کی کس حد تک فرمانبرداری کرسکتے ہیں؟
9 -اہلِ کتاب ماں اپنی اولاد کو چرچ وغیرہ میں لے جاسکتی ہے؟
10 - اہلِ کتاب بیوی اپنی عبادات اورمذہبی تہوار کس حد تک اپنے مذہبی طریقے سے ادا کرسکتی ہے؟
11 - اگر مسلمان شوہر اپنی اہلِ کتاب بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اس کا کیا طریقہ کارہوگا؟
12 - اہلِ کتاب بیوی پر پردے کے بارے میں کیا احکامات لاگو ہوں گے؟
13 - شوہر کی وفات کی صورت میں اہلِ کتاب بیوی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟
14 - شوہر کے فوت ہونے کی صورت میں اہلِ کتاب بیوی پر عدت کے بارے میں کیا احکامات لاگو ہوں گے؟ اور شوہر کی وراثت میں اس کو کتنا حصہ ملے گا؟
15 -اہلِ کتاب بیوی اگر فوت ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین کس مذہب کے مطابق ہوگی؟
16 - اہلِ کتاب بیوی کی میراث میں مسلمان شوہر کو کتنا حصہ ملے گا؟ اسی طرح مسلمان شوہر کی میراث میں اہلِ کتاب بیوی کو کتنا حصہ ملے گا؟
17 - اہلِ کتاب بیوی کے مذہبی معاملات مثلاً گرجا کی تعمیر وغیرہ میں مسلمان شوہر کتنی مدد کرسکتا ہے؟ اہلِ کتاب بیوی اپنے مسلمان شوہر کی کمائی سے اپنے مذہبی نظریات کا پرچار کرسکتی ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔        سائلہ:ڈاکٹر کوثر فردوس، اسلام آباد

الجواب باسم ملہم الصواب

اصل جوابات سے قبل چند امور ملاحظہ ہوں:
اول: یہ کہ کتاب سے کیا مراد ہے؟
دوم : یہ کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں اہلِ کتاب سے مراد کون لوگ ہیں؟
سوم: یہ کہ کیا اہلِ کتاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور سے ایمان و عمل رکھتے ہوں؟
یہ تو ظاہر ہے کہ کتاب سے مراد اس کے لغوی معنی (یعنی ہر لکھا ہوا ورق) تو ہو نہیں سکتے، (وہی کتاب مراد ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہو، اس لیے باتفاقِ امت کتاب سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جس کا کتاب اللہ ہونا بتصدیقِ قرآن یقینی ہو) جیسے تورات، زبور، انجیل، صحفِ موسیٰ و ابراہیم وغیرہ۔ اس لیے وہ قومیں جو کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتی ہوں جس کا کتاب اللہ ہونا قرآن و سنت کے یقینی ذرائع سے ثابت نہیں، وہ قومیں اہلِ کتاب میں داخل نہیں ہوںگی، جیسے مشرکینِ مکہ، بت پرست، ہندو، مجوس، آریہ، سکھ، وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جو تورات و انجیل پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ باصطلاحِ قرآن اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔
اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں؟ یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم n کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہلِ کتاب میں داخل ہیں؟ سو قرآن کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کے اتباع کرنے کے دعویدار ہوں، خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جا پڑے ہوں۔
اس تفصیل کے بعد یہ واضح ہو کہ مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد سے کسی بھی صورت میں جائز نہیں، خواہ کفر کی کوئی بھی قسم ہو۔ اسی طرح مسلمان مرد کا نکاح بھی کسی کافر عورت سے جائز نہیں، البتہ اگر عورت اہلِ کتاب میں سے ہو تو اس سے مسلمان مرد کا نکاح ہوسکتا ہے۔ (1)
لیکن آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے لحاظ سے یہودی یا نصرانی کہلاتے تو ہیں، مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسیٰ n کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا جن یہود و نصاریٰ کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ n کو اللہ کا نبی نہیں مانتے، وہ اہلِ کتاب کے حکم میں داخل نہیں اور ان سے نکاح جائز نہیں۔
لیکن یہ بھی واضح رہے کہ جمہور صحابہؓ و تابعینؒ کے نزدیک اگرچہ ازروئے قرآن اہلِ کتاب عورتوں سے فی نفسہٖ نکاح حلال ہے، لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اور خرابیاں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے، بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کے لیے ازروئے تجربہ لازمی طور سے پیدا ہوں گی، ان کی بنا پر اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کو وہ بھی مکروہ سمجھتے تھے۔
علامہ ابو بکر جصاصؒ نے ’’أحکام القرآن‘‘ میں شقیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ  جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دے دو۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے؟ تو پھر امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں حرام نہیں کہتا، لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر عفت اور پاکدامنی نہیں ہوتی، اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانے میں اس راہ سے فحش و بدکاری داخل نہ ہوجائے۔ اور امام محمد بن حسن  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’کتاب الآثار‘‘ میں اس واقعہ کو بروایتِ امام ابو حنیفہؒ اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  نے جب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  کو خط لکھا تو اس کے الفاظ یہ تھے:
’’أعزم عليک أن لا تضع کتابي حتی تخلی سبيلہا، فإني أخاف أن يقتديک المسلمون فيختاروا نساء أہل الذمۃ لجمالہن وکفٰی بذٰلک فتنۃ لنساء المسلمين۔‘‘          (کتاب الآثار، ص:۱۶۵)
’’یعنی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کردو، کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرےمسلمان بھی آپ کی اقتداء کریں اور اہلِ ذمہ اہلِ کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں تو مسلمان عورتوں کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی۔‘‘
اس واقعہ کو نقل کرکے حضرت امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: فقہائے حنفیہ اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اس نکاح کو حرام تو نہیں کہتے، لیکن دوسرے مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ فتاویٰ شامی (ج:۳، ص: ۴۵، ط، سعيد) میں ہے:
’’ويجوز تزوج الکتابيات والأولٰی أن لا يفعل إلا للضرورۃ۔‘‘ 
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  نے اس زمانے میں جو کہ خیر القرون تھا اور اس زمانہ کی عیسائی عورتیں مذہب پرست اور کتابی بھی تھیں، عیسائی عورتوں کے متعلق یہ ممانعت فرمائی تھی، تو آج کا دور تو بے انتہا فساد کا دور ہے، آج کے دور میں ان عیسائی اور یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقاتِ ازدواج تو بالکل ان مسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کردینے والے ہیں، جس کا روز مرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ نیز ہمارے اس دور میں نہ صحیح کتابیت ہے نہ مذہبیت، بلکہ دہریت اور سراسر سائنس پرستی ہے۔ اس وقت زیادہ ضروری ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی ممانعت پر عمل کیا جائے اور نکاح نہ کیا جائے۔ تفسیر حقانی میں ہے:
’’آج کل کے ملاحدۂ یورپ تو ہرگز عیسائی شمار نہیں ہوں گے۔‘‘ (ج:۴، ص:۱۱)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’لیکن اس زمانے میں جو نصاریٰ کہلاتے ہیں وہ اکثر قومی حیثیت سے نصاریٰ ہیں، مذہبی حیثیت سے محض دہری و سائنس پرست ہیں، ایسوں کےلیے یہ حکم جوازِ نکاح کا نہیں ہے۔‘‘(امداد الفتاوی، ج:۲، ص:۲۴۱،ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  ’’معارف القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’الغرض قرآن و سنت اور اسوۂ صحابہؓ کی رو سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ آج کل کی کتابی عورتوں کو نکاح میں لانے سے کلی پرہیز کریں۔‘‘     (ج:۳، ص:۶۴، ادارۃ المعارف، کراچی)
اس ضروری تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:
1- اسلام میں کسی غیر مسلم مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی يُؤْمِنَّ۔‘‘  (سورۂ بقرہ، آیت:۲۲۱، پارہ:۲)
ترجمہ: ’’اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجاویں۔‘‘ (بیان القرآن)
لیکن غیر مسلموں میں سے صرف اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے، اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ نکاح کی حلت و حرمت میں اہلِ کتاب کا اصل مذہب موجودہ زمانے تک اکثر چیزوںمیں اسلامی شریعت کے مطابق ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ اہلِ کتاب میں پایا جاتا ہے، وہ جاہل عوام کی اغلاط ہیں، ان کا مذہب نہیں، لہٰذا اگر مخصوص کرکے اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی بھی گئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نکاح انہیں کے طریقہ پر پڑھایا جائے یا جس بھی طریقہ سے چاہے پڑھایا جائے، بلکہ نکاح اسلامی طریقہ سے ہی پڑھایا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمان عورتوں اور اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کا حکم ایک ہی ساتھ بیان کیا اور جو طریقہ مسلمان عورتوں سے نکاح کا بتلایا کہ باقاعدہ ان کا حق مہر ادا کرکے ان سے نکاح کرو، وہی طریقہ اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کا بھی بتلایا۔ (۲)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مسلمان مرد کی اہلِ کتاب سے شادی کی صورت میں نکاح مذہبِ اسلام ہی کے مطابق پڑھایا جائے گا، جس میں باقاعدہ روبرو گواہوں کےایجاب و قبول ہوگا۔
2- اگر مسلمان مرد نے اہلِ کتاب عورت سے اس کے چرچ میں جاکر اس کے مذہبی قواعد کے مطابق شادی کی تو یہ شادی معتبر نہیں ہوگی، لہٰذا توبہ و استغفار اور از سرِ نو نکاح پڑھنے کا حکم عائد ہوگا۔ لیکن اگر چرچ میں جاکر اسلامی طریقہ سے شادی کی ہو تو یہ شادی معتبر تو ہوجائے گی، اس لیے کہ نکاح کے لیے ایجاب و قبول ضروری ہے، جہاں کہیں بھی ہو، کسی مکان کے ساتھ خاص نہیں، لیکن پھر بھی کراہت سے خالی نہیں۔ کتابوں میں ایسے شخص کو تعزیری سزا دینے کا ذکر ہے جو ان کے عبادت خانوں میں آنا جانا رکھتا ہو۔ نیز نکاح کے لیے مستحب ہے کہ مسجد یا دیگر مبارک مقامات پر ہو، جب کہ گرجا چرچ وغیرہ شیاطین کے جمع ہونے کی جگہیں ہیں۔(۳)
3- واضح رہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں اور ماننے والوں کو طہارت و پاکیزگی کی ترغیب دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام جنابت، حیض، نفاس اور مباشرت کے بعد طہارت کے واسطے غسل کرنے کو لازم ٹھہراتا ہے۔(۴)
لیکن چونکہ یہ اسلام کا خالص مذہبی معاملہ ہے، اس لیے ایک اہلِ کتاب عورت کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اگر اہلِ کتاب جنابت، حیض و نفاس اور مباشرت کے بعد غسل و طہارت کو لازم نہیں سمجھتے ہوں، تو ایک مسلمان مرد کے لیے اپنی اہلِ کتاب بیوی کو جنابت، حیض و نفاس وغیرہ کے بعد غسل پر مجبور کرنے کا حق حاصل نہیں، لیکن ایک مسلمان مرد کی بیوی ہونے کے ناطے اگر اہلِ کتاب عورت مذکورہ بالا صورتوں میں اپنی خوشی سے غسل کرلے تو یہ مستحسن اور قابل ستائش ہے۔(۵)
4- واضح رہے کہ اہلِ کتاب عورت سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد مسلمان ہوگی۔(۶)
نیز یہ بھی واضح رہے کہ برے نام کا انسان کی شخصیت اور اس کے کردار پر کافی اثر پڑتا ہے، اسی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اچھے اور بہترین نام رکھنے کی ترغیب دی ہے۔حدیث شریف میں ہے:
’’عن عبد الحميد بن جبير بن شيبۃ قال: جلست إلی سعيد بن المسيب، فحدثني أن جدہٗ حزنا قدم علی النبي ﷺ، فقال: ما اسمک؟ قال: اسمي حزن، قال: بل أنت سہل، قال: ما أنا بمغير إسما سمانيہ أبي، قال ابن المسيب: فما زالت فينا الحزونۃ بعد۔ رواہ البخاري۔‘‘     (مشکاۃ، ج:۲، ص:۴۰۹، ط: قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ: ’’حضرت عبد الحمید بن جبیر بن شیبہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعید بن مسیبؒ کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سن کر فرمایا کہ: حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے، بلکہ میں تمہارا نام سہل رکھتا ہوں۔ میرے دادا نے کہا کہ: میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے، اب میں اس کو بدل نہیں سکتا۔ حضرت سعیدؒ نے فرمایا کہ : اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔‘‘   (مظاہر حق جدید)
ایک اور حدیث میں ہے:
’’وعن أبي وہب الجشمي قال: قال رسول اللہ ﷺ: تسموا بإسماء الأنبياء وأحبّ الأسماء إلی اللہ عبد اللہ وعبد الرحمٰن وأصدقہا حارث وہمام وأقبحہا حرب ومرۃ۔‘‘      (مشکاۃ، ج:۲، ص: ۴۰۹، ط: قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ: ’’اور حضرت ابو وہب جشمیؒ کہتے ہیں کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: انبیاء کے ناموں پر اپنے نام رکھو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمٰن ہیں ۔۔۔۔۔  نیز زیادہ سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرۃ ہیں۔‘‘      (مظاہرِ حق جدید)
اس تمام تفصیل کے پیش نظر صورتِ مسئولہ میں مسلمان بچوں کے نام عیسائیوں کے ناموں جیسے رکھنا جائز نہیں، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
5، 6 - اہلِ کتاب چونکہ شراب پینے اور سور کا گوشت کھانے کی حلال سمجھتے ہیں، اس لیے اہلِ کتاب بیوی کے لیے اس کے کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ خیال رکھے کہ اپنے مسلمان شوہر اور بچوں کے سامنے نہ کھائے پئے۔
اور جہاں تک گھر میں شراب لانے کا یا گھر میں شراب بنانے کا تعلق ہے تو چونکہ اس سے بچوں کی تربیت متاثر ہوسکتی ہے، اس لیے ایک مسلمان شوہر اپنی اہلِ کتاب بیوی کو گھر میں شراب بنانے اور لانے سے منع کرسکتا ہے۔(۷)
7- واضح رہے کہ اسلام نے انسان کے بدن کو پاک قرار دیا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، اس لیے غیر مسلموں میں جب تک ظاہری نجاست نہ ہو تو ان کے ساتھ ایک برتن میں کھانا اور ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی یا اس کی چھوئی ہوئی چیزیں مسلمانوں کو لینا اور کھانا جائز ہے، تاہم اعتقادی اختلاف باعثِ کراہت ہے، اس لیے اجتناب بہتر ہے۔(۸) لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو اہلِ کتاب بیوی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھایا جاسکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
8-  واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ ادب و احترام اور حسنِ سلوک سے پیش آنے کا قرآن مجید میں بار بار حکم فرمایا ہے اور ان کو معمولی سے معمولی تکلیف دینے سے بھی منع فرمایا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ ‘‘      (سورۂ اسراء، آیت :۲۳)
ترجمہ: ’’اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی ہاں سے ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔‘‘   (بیان القرآن)
اسی طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی والدین بلکہ بالخصوص والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا کئی احادیث میں حکم دیا ہے، چند ایک یہ ہیں:
’’عن أبي ہريرۃؓ قال: قال رجل: يا رسول اللہ! من أحق بحسن صحابتي، قال: أمک، قال: ثم من؟ قال: أمک، قال: ثم من؟ قال: أمک، قال: ثم من؟ قال: أبوک۔‘‘       (مشکاۃ، ج:۲، ص:۴۱۸، ط: قدیمی کتب خانہ)
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! میری اچھی رفاقت یعنی میری طرف سے حسنِ سلوک و احسان اور خدمت گزاری کا سب سے زیادہ مستحق کون شخص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارا باپ۔‘‘  (مظاہرِ حق جدید)
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
’’وعن أسماء بنت أبي بکرؓ قالت: قدمت علي أمي وہي مشرکۃ في عہد قريش، فقلت: يا رسول اللہ! إن أمي قدمت علي وہي راغبۃ، أفأصِلھا؟ قال: نعم، صِليہا۔‘‘    (مشکاۃ، ج:۲، ص:۴۱۹، ط: قدیمی)
ترجمہ: ’’اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  کہتی ہیں کہ میری والدہ شرک کی حالت میں مکہ مکرمہ سے مدینہ آئیں، جب کہ قریش کے ساتھ صلح کا زمانہ تھا، یعنی مدینہ میں میری والدہ کے آنے کا واقعہ اس زمانہ کا ہے، جب کہ صلح حدیبیہ کی صورت میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  اور قریش کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوچکا تھا اور میری والدہ اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار ہیں، کیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں! ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘    (مظاہر حق جدید)
لیکن یہ واضح رہے کہ یہ فرمانبرداری کا حکم صرف اس قت تک ہے جب تک وہ کسی خلافِ شریعت کام پر مجبور نہ کریں۔اگر والدین خلافِ شریعت کام پر مجبور کریں تو اس میں ان کی فرمانبرداری نہ صرف ضروری نہیں، بلکہ ناجائز ہے، لیکن حسنِ سلوک اور ادب و احترام بہرحال ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا‘‘     (سورۂ لقمان، آیت:۱۵، پارہ:۲۱)
ترجمہ: ’’اور اگر تجھ پر وہ دونوں اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرا جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو ان کا کچھ کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا۔‘‘  (بیان القرآن)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مسلمان بچے اہلِ کتاب ماں کی ہر قسم کی فرمانبرداری کے پابند ہوں گے، لیکن جو باتیں دینِ اسلام سے ہٹ کر یا شریعت سے متصادم ہوں، ان میں اہلِ کتاب ماں کی فرمانبرداری نہیں۔
9- چونکہ اہلِ کتاب بیوی سے پیدا شدہ اولاد مسلمان ہوگی (جیسا کہ گزر چکا)، تو اگر اہلِ کتاب ماں اپنی اولاد کو پچپن سے چرچ لے جائے گی تو وہ چرچ جانے کے عادی بن جائیں گے، حالانکہ مسلمان کا گرجا چرچ وغیرہ جانا مکروہ (ناجائز)ہے۔ نیز اس سے ان مسلمان بچوں کی مذہبی نقطۂ نظر سے تربیت پر بھی اثر پڑے گا، اس لیے مسلمان شوہر اپنی اہلِ کتاب بیوی کو بچوں کو چرچ لے جانے سے سختی سےمنع کرے، تاکہ مستقبل میں وہ کفر سےمحفوظ رہیں۔(۹)
10- اہلِ کتاب بیوی اپنی عبادات اور مذہبی تہوار اپنے مذہبی طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔ وہ گھر میں جہاں بھی چاہے اپنے مذہبی طریقے سے عبادت کرسکتی ہے، لیکن اگر وہ عبادت کے لیے چرچ یا گرجا جانا چاہے تو مسلمان شوہر اس کو چرچ جانے سے منع کرسکتا ہے، جیسے ایک مسلمان بیوی کو اس کا شوہر مسجد جانے سےمنع کرسکتا ہے۔ (۱۰)
نیز اہلِ کتاب بیوی کے لیے گھر میں اس طرح کی کوئی چیز لٹکانا یا لگانا جو شعائر اہلِ کتاب میں سے ہو، اس کی بھی شرعاً اجازت نہیں۔(۱۱)
حاصل یہ کہ اہلِ کتاب بیوی مخصوص دائرہ میں رہ کر اپنے مذہبی تہوار اور عبادات اپنے مذہبی طریقہ سے ادا کرسکتی ہے۔
11- چونکہ اہلِ کتاب بیوی سے نکاح تب ہی معتبر ہوتا ہے جب اسلامی طریقہ سے کیا جائے، تو نکاح کے اس بندھن کو اگر کبھی توڑنےکی ضرورت پیش آئے تو بھی وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو اسلام میں متعارف ہے، اور وہ ہے اسلام کا نظامِ طلاق۔(۱۲)
لہٰذا جیسے ایک مسلمان بیوی کو طلاق دی جاتی ہے، اسی طرح اہلِ کتاب بیوی کو بھی دی جائے گی۔ اگر مسلمان شوہر اپنی اہلِ کتاب بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دے دے تو عدت کے اندر اس کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔اور اگر عدت گزرگئی یا طلاق بائن دی ہو تو دوبارہ رشتۂ زوجیت قائم کرنے کے لیے تجدیدِ نکاح (یعنی نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح) لازم ہوگی۔ اور اگر تین طلاق دے دے تو اہلِ کتاب بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔ رجوع یا تجدید نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، تاآنکہ وہ مسلمان شوہر کی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرے اور حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے بعد دوسرا شوہر از خود طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے اور دوسرے شوہر کی عدت بھی گزرجائے تو پہلے شوہر سے نکاح جائز ہوگا۔(۱۳)
12- چونکہ پردہ مسلمانوں کا یک خالص مذہبی معاملہ ہے، اس لیے شرعاً اہلِ کتاب عورت کو اس کا پابند نہیں کیا جاسکتا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی جس آیت میں پردے کا حکم فرمایا ہے، اس آیت میں ’’نساء المؤمنین‘‘ کا ذکر ہے، یعنی مؤمنین کی عورتیں، جن میں بیویاں بھی داخل ہیں، اس لیے اہلِ کتاب بیوی کو بھی پردے میں رہناچاہیے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ‘‘(احزاب)
ترجمہ: ’’اے پیغمبر !اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچے کرلیا کریں تھوڑی سی اپنی چادریں۔‘‘    (بیان القرآن)
نیز اہلِ کتاب بیوی کا مسلمان شوہر اپنی بیوی کو باہر نکلنے اور بے پردگی سے روکنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ (۱۴)
13 -جس طرح ایک مسلمان بیوی اپنے شوہر کے فوت ہونے کی صورت میں عدتِ وفات گزار کر دوسرا نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے، اسی طرح اہلِ کتاب بیوی بھی شوہر کے فوت ہونے کی صورت میں عدتِ وفات گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ (عدت کی تفصیل آرہی ہے)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔‘‘ (البقرۃ:۲۳۴)
ترجمہ:’’پھر جب اپنی معیاد (عدت) ختم کرلیں تو تم کو کچھ گناہ نہ ہوگا ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لیے کچھ کارروائی (نکاح کی)کریں قاعدہ کے موافق۔‘‘   (بیان القرآن)
14-مسلمان شوہر اگر اپنی اہلِ کتاب بیوی کو طلاق دے یا وہ انتقال کر جائے تو اس کی اہلِ کتاب بیوہ مطلقہ پر عدت گزارنا لازم ہوگا۔ طلاق واقع ہونے کی صورت میں عدت تین ماہواریاں ہوگی اور شوہر کے انتقال کی صورت میں عدت چار مہینے دس دن ہوگی۔ اور اگر حاملہ ہو تو پھر دونوں صورتوں میں عدت وضع حمل ہوگی۔(۱۵)
لیکن یہ واضح رہے کہ جس طرح ایک مسلمان بیوہ پر دورانِ عدت سوگ گزارنا لازم ہوتا ہے اور بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہوتا، اہلِ کتاب بیوہ کے لیے یہ حکم نہیں،وہ اگر دورانِ عدت باہر نکلنا چاہے تو نکل سکتی ہے، نیز اس پر سوگ گزارنا لازم نہیں۔(۱۶)
ہاں! اگر اہلِ کتاب بیوہ دورانِ عدت مسلمان ہوجائے تو پھر اس پر باقی عدت میں سوگ گزارنا لازم ہوگا۔(۱۷)
15- اگر اہلِ کتاب بیوی کفر ہی کی حالت میں مرجائے تو اگر اس کا کوئی رشتہ دار اس کا ہم مذہب موجود ہو تو بہتر یہی ہے کہ اس کی لاش اسی کے لیے چھوڑدی جائے، تاکہ وہ جس طرح چاہے اسے دفن وغیرہ کرلے اور اگر اس کا کوئی رشتہ دار اس کےمذہب کا نہ ہو تو اس کے مسلمان شوہر پر اس کا غسل و کفن و دفن واجب تو نہیں، البتہ ان کے لیے اتنا جائز ہے کہ غسل و کفن اور دفن کا جو مسنون طریقہ ہے، اس کی رعایت کیے بغیر اسے ناپاک کپڑے کی طرح دھوکر کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں دبادے۔(۱۸)
16 - چونکہ اختلافِ دین و عقیدہ مانعِ ارث ہے، اس لیے کافر مسلمان کی میراث نہیں لے سکتا اور نہ ہی مسلمان کو کافر کی میراث دی جاسکتی ہے۔(۱۹)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مسلمان شوہر کے مرنے کے بعداس کا ترکہ اس کے مسلمان ورثاء میں تقسیم ہوگا، اہلِ کتاب بیوہ کو کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح اہلِ کتاب بیوی کے مرنے کی صورت میں اس کے مسلمان شوہر کو اس کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا، بلکہ اس کے کافر ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
17- ایسے امور میں کسی غیر مسلم کا تعاون کرنا تعاون علی المعصیۃ کے مترادف ہے۔(۲۰)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘                         (سورۂ مائدہ، آیت:۲، پارہ:۶)
ترجمہ: ’’اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔‘‘            (بیان القرآن)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مسلمان شوہر اپنی کمائی سے اپنی اہلِ کتاب بیوی کو مذہبی نظریات کے پرچار اور عبادت خانوں کی تعمیر کے لیے رقم نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ لینے کی مجاز ہے۔

حوالہ جات

1  - فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
’’نکاح غير الکتابيۃ لا يجوز للمسلم بحال ونکاح الکتابيۃ جائز للمسلم سواء کانت حربيۃ أو غير حربيۃ۔‘‘          (ج:۷، ص: ۳، الفصل الثامن في بيان ما يجوز من الأنکحۃ وما لا يجوز، ط: إدارۃ القرآن والعلوم الإسلاميۃ، کراتشی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(وصح نکاح کتابيۃ) وإن کرہ تنزیہا (مؤمنۃ بنبي) مرسل (مقرۃ بکتاب) منزل وإن اعتقدوا المسيح إلٰہا۔‘‘   (ج:۳، ص: ۴۵، فصل في المحرمات، ط: سعید)
2  - ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذَا آتَيْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ‘‘    (سورۃ مائدۃ، آيۃ: ۵)
ترجمہ: ’’اور پارسا عورتیں بھی جو مسلمان ہوں اور پارسا عورتیں ان لوگوں میں سے بھی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں جب کہ تم ان کو ان کا معاوضہ دے دو اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ، نہ تو علانیہ بدکاری کرو اور نہ خفیہ آشنائی کرو۔‘‘                    (بیان القرآن)
3  - فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(وينعقد) متلبسا (بإيجاب وقبول) ۔‘‘   (ج:۳، ص:۹، کتاب النکاح، ط: سعيد)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
’’مباشرۃ النکاح في المسجد مستحب۔‘‘  (ج:۲، ص:۵۱، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’ويندب إعلامہ وتقديم خطبۃ وکونہ في مسج يوم جمعۃ بعاقد رشيد وشيء وعدول۔‘‘     (ج:۳، ص:۸، ط، سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ويکرہ للمسلم الدخول في البيعۃ والکنيسۃ وإنما يکرہ من حيث أنہٗ مجمع الشياطين لا من حيث أنہ ليس لہ من الدخول۔‘‘    (ج:۵، ص:۳۴۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
4  - حدیث شریف میں ہے:
 ’’الطہور شطر الإيمان ۔‘‘   (مشکاۃ، ج:۱، ص:۳۸، ط، قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ: ’’پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔‘‘   (مظاہر حق جدید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’الفصل الثالث في المعاني الموجبۃ للغسل وہي ثلاثۃ: منہا الجنايۃ والسبب الثاني الإيلاج ومنہا الحيض والنفاس۔‘‘   (ج:۱، ص:۱۴-۱۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
5  - فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے:
’’ليس عليہ إجبارہا علی الغسل من دم الحيض والنفاس والجنايۃ۔‘‘    (ج:۲، ص:۷، ط: إدارۃ القرآن کراچی)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
’’الذميۃ إن کان لہا زوج مسلم فجامعہا لا تؤمر بالاغتسال إن کانوا لا يغتسلون ۔‘‘   (ج:۱، ص: ۴۷، ط: رشیدیہ کوئٹہ) 
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ولا يجبرہا علی الغسل من دم الحيض والنفاس والجنابۃ کذا في السراج الوہاج۔ ‘‘  (ج:۱، ص:۲۸۱، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
’’وقال مطرف عن الشعبي في قولہ تعالی (والمحصنا من الذين أوتوا الکتاب من قبلکم) قال إحصان اليہوديۃ والنصرانيۃ أن تغتسل من الجنابۃ وأن تحصن فرجہا۔‘‘     (ج:۲، ص:۴۵۹، ط: قدیمی کتب خانہ)
6  -  چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
’’لو کان أحد أبويہ مسلما يعطی لہ حکم الإسلام لأن الإسلام يعلو ولا يعلی عليہ۔‘‘ (ج:۲، ص:۲۷۱، ط: سعید)
شرح ملا مسکین میں ہے:
’’(والولد يتبع خير الأبوين دينا) فإن کان أحد الزوجين مسلما فالولد علی دينہ۔‘‘ (ج:۱، ص:۱۶۹، ط: دار الکتب العلميہ)
7  - خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے:
’’ويمنعہا من إدخال الخمر بيتہ۔‘‘      (ج:۴، ص:۳۴۸، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ثم إذا تزوج المسلم الکتابيۃ فلہا منعہا ومن اتخاذ الخمر في منزلہ۔‘‘    (ج:۱، ص:۲۸۱، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
8  - فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولا بأس بطعام اليہود والنصاری کلہ من الذبائح وغيرہا ويستوي فيہ الجواب بين أن يکون اليہود والنصاری من أہل الحرب أو من غير أہل الحرب وکذا يستوي أن يکون اليہود والنصاری من بني إسرائيل أو من غيرہم کنصاری العرب وحکی عن الحاکم الإمام عبد الرحمن الکاتب أنہ إن ابتلی بہ المسلم مرۃ أو مرتين فلا بأس بہ وأما الدوام عليہ فيکرہ۔‘‘    (ج:۵، ص:۳۴۷، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
9  - فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’يکرہ للمسلم الدخول في البيعۃ والکنيسۃ۔‘‘    (ج:۵، ص:۳۴۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
10  - فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
’’المسلم إذا تزوج ذميۃ فلہ أن يمنعہا عن الخروج إلی الکنائس والبيع۔‘‘  (ج:۳، ص:۷، کتاب النکاح، ط: ادارۃ القرآن)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
’’ولہ أن يمنعہا من الخروج إلی البيعۃ کما يمنعہا من الخروج إلی المساجد۔‘‘   (ص:۴۷، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
11  - فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’قال القدوري في النصرانيۃ تحت مسلم لا تنصب في بيتہ صليبا وتصلی في بيتہ حيث شاعت۔‘‘ (ج:۵، ص:۳۴۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
12  - فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’المسلمۃ والکتابيۃ والأمۃ في وقت طلاق  السنۃ سواء۔‘‘   (ج:۱، ص:۳۴۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
13  - فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’إذا طلق الرجل امرأتہ تطليقۃ رجعيۃ أو تطليقتين، فلہ أن يراجعہا في عدتہا رضيت بذٰلک أو لم ترض۔‘‘   (ج:۱، ص:۴۷۰، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
’’وإذا کان الطلاق بأسا دون الثلاث فلہ أن يتزوجہا في العدۃ وبعد انقضائہا وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرۃ وثنتين في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غيرہ نکاحا صحيحا يدخل بہا ثم يطقہا أو يموت عندہا۔‘‘    (ج:۱، ص: ۴۷۲-۴۷۳، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
14  - چنانچہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
’’ولہ أن يمنعہا من الخروج إلی البيعۃ کما يمنعہا من الخروج إلی المساجد۔‘‘   (ج:۱، ص:۴۷، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
15  - فتاوی شامی میں ہے:
’’والذميۃ لو طلقہا مسلم أو مات عنہا تعتد اتفاقا ۔‘‘   (ج:۳، ص:۵۲۶، ط:سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’إذا طلق الرجل امرأتہ طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا وقعت الفرقۃ بينہما بغير طلاق وہي حرۃ ممن تحيض فعدتہا ثلاثۃ أقراء سواء کانت الحرۃ مسلمۃ أو کتابيۃ۔‘‘ (ج:۱، ص:۵۳۶، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
شرح ملا مسکین میں ہے:
’’وعدۃ الحرۃ مطلقا سواء کانت صغيرۃ أو کبيرۃ أو کافرۃ أو مسلمۃ موطوءۃ أو غير موطوءۃ (للموت أربعۃ أشہر وعشر) ليال فيتناول بإزائہا من الأيام۔‘‘   (ج:۱، ص: ۲۰۳، ط:دار الکتب العلميۃ)
الدر المختار میں ہے:
’’وللموت أربعۃ أشہر وعشر مطلقا وطئت أولا ولو صغيرۃ أو کتابيۃ تحت مسلم ۔‘‘   (ج:۳، ص:۵۱۰، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’وعدۃ الحامل أن تضع حملہا کذا في الکافي سواء کانت حاملا وقت وحوب العدۃ أو حبلت بعد الوجوب وسواء کانت المرأۃ مسلمۃ أو کتابيۃ وسواء کانت عن طلاق أو وقاۃ أو متارکۃ۔‘‘   (ج:۱، ص:۵۲۸، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
16  - فتاوی شامی میں ہے:
’’لا حداد علی سبعۃ: کافرۃ وصغيرۃ ومجنونۃ۔‘‘   (ج:۳، ص:۵۳۲، فصل في الحداد، ط: سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ولا يجب الحداد علی الصغيرۃ والمجنونۃ الکبيرۃ والکتابيۃ والمعترۃ من نکاح فاسد۔‘‘ (ج:۱، ص:۵۳۴، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
17  - فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’لو أسلمت الکافرۃ في العدۃ لزمہا الإحداد في ما بقي من العدۃ۔‘‘    (ج:۱، ص:۵۳۴، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
18  - فتاوی شامی میں ہے:
’’ويغسل المسلم ويکفن ويدفن قريبۃ الکافر الأصلي عند الإحتياج فلو لا قريب فالأولی ترکہ لہم (من غير مراعاۃ السنۃ) فيغسلہ غسل الثوب النجس ويلفہ في خرقۃ ويلقيہ في حضرۃ۔ وفي الشاميۃ: ويغسل المسلم أي جوازا لأن من شرط وجوب الغسل کون الميت مسلما قال في البدائع: حتی لا يجب غسل الکافر لأن الغسل وجب کرامۃ وتعظيما للميت والکافر ليس من أہل ذلک۔‘‘ (ج:۲، ص:۲۳۰، ط سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’وإن مات الکافر ولہ ولي مسلم يغسلہ ويکفنہ ويدفنہ ولکن يغسل غسل الثوب النجس ويلف في خرقۃ ويحفر حضرۃ من غير مراعاۃ سنۃ التکفين واللحد ولا يوضع فيہ بل يلقی۔‘‘  (ج:۱، ص:۱۶۹، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
19  - فتاوی شامی میں ہے:
’’وموانعہ الروح والقتل واختلاف الدين۔‘‘   (ج:۶، ص:۷۶۶، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’واختلاف الدين أيضا يمنع الإرث والمراد بہ الاختلاف في الإسلام والکفر۔‘‘  (ج:۶، ص:۴۵۴، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
’’الکفار يتوارثون في ما بينہم بالأسباب التي يتوارثون بہا أہل الإسلام في ما بينہم من النسب والسبب ۔‘‘ (ایضاً)
20  - فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ذمي سأل مسلما علی طريق البيعۃ لا ينبغي للمسلم أن يدلہ علی ذلک لأنہ إعانۃ علی المعصيۃ۔‘‘ (ج:۲، ص:۲۵۰، ط: رشیدیہ، کوئٹہ)

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد عبدالمجید دین پوری

شعیب عالم

احسان اللہ حسن

 

 

تخصصِ فقہ اسلامی

 

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین